پاکستان کی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے اپریل کے اجلاس میں 2017 میں ملک میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کو منظور کیا جس کے تحت ملک کی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 84 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یوں 1998 سے 2017 کے دوران 2.40 فی صد سالانہ کی رفتار سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
آبادی میں اضافے کا تناسب گزشتہ مردم شماری سے کم ریکارڈ کیا گیا جب 1998 کی مردم شماری سے معلوم ہوا تھا کہ ملک کی آبادی 2.69 فی صد سالانہ کی رفتار سے جب کہ 1981 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 3.06 فی صد کی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔
اسی طرح پنجاب بدستور ملک کی آبادی کے آدھے سے زیادہ حصے پر مشتمل ہے۔ البتہ مجموعی طور پر اس کی آبادی پاکستان کی کُل آبادی کے مقابلے میں 55.63 فی صد (1998 کی مردم شماری کے مطابق) سے کم ہو کر 52.96 فی صد رہ گئی ہے۔ دوسری جانب سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم کیے گئے قبائلی علاقہ جات کی آبادی کے تناسب میں کوئی فرق نہیں آیا۔
آبادی میں سب سے زیادہ اضافے کی شرح دارالحکومت اسلام آباد میں نوٹ کی گئی جہاں یہ شرح 4.90 فی صد سالانہ رہی۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر پنجاب میں آبادی بڑھنے کی شرح سب سے کم 2.13 فی صد سالانہ ریکارڈ کی گئی۔
آبادی میں تبدیلی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں دیہی کے مقابلے میں شہری آبادی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
آج سے 40 سال قبل 1981 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق ملک کی 28 فی صد آبادی شہروں میں اور 72 فی صد دیہات میں رہائش پذیر تھی۔ لیکن 2017 کی مردم شماری کے مطابق شہروں میں اب 36.44 فی صد جب کہ دیہات میں کم ہو کر 63.56 فی صد آبادی رہائش پذیر ہے۔ یعنی پاکستان کے شہروں میں تقریباََ آٹھ کروڑ افراد مقیم ہیں۔
سب سے زیادہ شہری آبادی سندھ میں
پاکستان کی 36.44 فی صد وہ آبادی جو شہروں میں مقیم ہے اس کا نصف سے زیادہ یعنی 51.88 فی صد صرف سندھ میں رہائش پذیر ہے جہاں لگ بھگ دو کروڑ 48 لاکھ سے زائد افراد شہروں میں مقیم ہیں۔
اس کے بعد اسلام آباد اور پھر پنجاب کا نمبر آتا ہے جہاں بالترتیب آبادی کا 50.37 فی صد اور 36.86 فی صد شہروں میں مقیم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کو دنیا میں تیزی سے اربنائز (یعنی شہروں کی آبادی میں اضافہ) ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جہاں اس کی شرح 2.53 فی صد سالانہ بتائی جاتی ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ پاکستان کا ادارہ شماریات صرف ان علاقوں کو ہی شہری علاقے تسلیم کرتا ہے جہاں شہروں کی انتظامی حدود ہیں۔ اس لیے شہروں کے مضافاتی علاقوں اور ان کے قریب آباد نیم شہری علاقے اب بھی دیہی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
تیزی سے اربنائزیشن کا عمل نعمت ہے یا زحمت؟
شہری امور کے ماہر اور این ای ڈی یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اربنائزیشن کے عمل کو عام طور پر تہذیبوں کے ارتقا میں مثبت سمجھا جاتا ہے۔ اس عمل کے ہونے سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، یہاں اس عمل سے شہریوں کو بہتر زندگی گزارنے کے لیے مزید سہولیات میسر آتی ہیں۔ اس لحاظ سے اربنائزیشن کا عمل سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ایک بہت مثبت تبدیلی ہے۔ اور اس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نعمان احمد کے بقول اس میں بہتری کے لیے منصوبہ بندی اور گورننس یعنی انتظامی نظم و نسق کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ لیکن پاکستان میں اربنائزیشن کو منصوبہ بندی کے بغیر اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اس کے لیے کوئی مناسب سوچ بچار نہیں کی گئی جو اس کے لیے پیشگی ضروری عمل تھا۔ ان عوامل کی وجہ سے اربنائزیشن ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
شہری امور کے ایک اور ماہر اور کراچی اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر محمد یونس کہتے ہیں کہ شہروں میں رہنے والے لوگ دیہی آبادی کے مقابلے میں نئے اور زیادہ گھمبیر مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا فقدان، آلودگی، نقل و حرکت میں پریشانی، صحت سے جڑے ہوئے مسائل، بڑھتے ہوئے جرائم اور کئی سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل جڑ پکڑنے کے بعد اب وہ ناسور بن چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو ہماری صورتِ حال نسبتاََ زیادہ خراب دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شہروں کی بہتری کے لیے کئی پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے جس میں سب سے اہم تو یہ ہے کہ ہم نے مقامی حکومتوں یا شہری اداروں کی کوئی تنظیم نو کی اور نہ ان کی استعداد کار کو بڑھایا جو آبادی میں اضافے کے مسائل کو اسی تیزی کے ساتھ حل بھی کرے۔
ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا تھا کہ جمہوری انداز سے جو فیصلہ سازی مقامی حکومتوں نے کرنا تھی اس میں بھی مستقل طور پر مقامی اداروں کو تجرباتی عمل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقامی حکومتوں میں ہر چند سال کے بعد ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
منصوبہ بندی کا فقدان، زرخیز زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر
ڈاکٹر نعمان احمد نے ایک اور مسئلے کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ملک کی زرخیز زمینوں پر بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ شہروں کی انتظامیہ نے اپنے میٹروپولیٹن علاقوں کو نہ صرف باقاعدہ وضع کر رکھا ہے۔ لندن جیسے پرانے شہر کے گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے سے 32 لوکل ڈسٹرکٹ اتھارٹیز ہیں اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اربنائزئشن کو منصوبہ بندی کے تحت ریگولیٹ نہیں کیا گیا تو اس سے نہ صرف کھیت کھیلان متاثر ہوں گے۔ بلکہ دیگر ماحولیاتی اثاثے جیسے کہ پانی، جنگلات، نیشنل پارکس اور دیگر علاقے متاثر ہوں گے۔
پنجاب میں اربنائزیشن کا عمل مہلک قرار
ڈاکٹر نعمان کے بقول پنجاب میں اربنائزیشن کا بڑھتا ہوا رحجان مہلک ہے۔ جہاں ایسے افراد کے لیے شہری علاقے بنائے جا رہے ہیں جو یہاں رہتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے لوگ یہاں سرمایہ کاری کی غرض سرمایہ لگاتے ہیں۔
ان کے مطابق ایسے میں اُن کو ان کے سرمائے کا منافع تو خوب مل رہا ہے۔ البتہ اس کی قیمت پاکستان کے عوام اٹھا رہے ہیں اور آنے والی نسلیں اس کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
مسائل کا حل بہتر طرز حکمرانی
ماہرین کے بقول اس مسئلے کا حل بہتر منصوبہ بندی، قوانین پر سختی سے عمل درآمد، پرانی غلطیوں کو درست کرنے، آئندہ کے لیے غلط حکمت عملی پر عمل درآمد سے باز رہنے اور سب سے بڑھ کر بہتر طرزِ حکمرانی میں پوشیدہ ہے۔
دوسری جانب وزیرِ خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ملک بھر میں جمع ہونے والے محصولات کے بعد جب خرچ کی بات آتی ہے تو ملک کے نو شہروں پر اس کا 85 فی صد خرچ ہو جاتا ہے۔
ان کے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے صوبے یا علاقے کا پیسہ ہے وہ وہیں خرچ ہونا چاہیے۔
انہوں نےکہا کہ اس کو ٹھیک کرنا ہے تاکہ پائیدار ترقی کے ساتھ ایسی ترقی ہو جس میں آبادی کا بڑا حصہ شامل ہو اور سب کو ترقی کے ثمرات ملیں۔ ان کے خیال میں یہ اس وقت ہو گا جب تک بعض بنیادی چیزوں کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت پہلی بار بہت عرصے کے بعد منصوبہ بندی کی مشق کر رہی ہے۔ اس بارے میں حکومت اپنی مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہری امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں اگر مناسب انداز سے وسائل کی تقسیم کی جائے۔ دیہی علاقوں میں بھی ترقی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ تو بڑے شہروں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے عمل کو کم کیا جا سکے گا جس سے اربنائزیشن سے جُڑے گھمبیر مسائل کی روک تھام میں مدد ملے گی۔