چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔
بیجنگ اور نئی دہلی ایک دوسرے پر فائرنگ میں پہل کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان متنازع سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ای کے درمیان 10 ستمبر کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ملاقات متوقع ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق چین کی وزارتِ دفاع نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ لداخ میں اس کے فوجیوں نے اس وقت جوابی اقدامات کیے جب بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے فائرنگ شروع کی۔
وزارتِ دفاع کے بیان کے مطابق بھارت نے پیر کو انتہائی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا اور اس کے اہل کاروں نے مغربی سرحد پر لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے ای) کو عبور کیا اور فائرنگ کی۔
دوسری جانب بھارت نے بھی چین کی سرحدی فورسز پر فائرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے چین کے دعوے کی تردید کی ہے۔
بھارتی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی فوجیوں نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔ یہ جارحیت ایسے موقع پر کی گئی ہے جب فریقین کے درمیان فوجی، سفارتی اور سیاسی سطح پر مذاکرات کا عمل جاری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارتی فوج کے مطابق شدید اشتعال انگیزی کے باوجود بھارتی اہل کاروں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
فوج نے بیان میں مزید کہا ہے کہ چین اپنے بیانات سے پوری دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی فوج نے نہ تو ایل اے سی عبور کی اور نہ ہی فائرنگ کی۔
'ایل اے سی' پر 45 برسوں میں فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دونوں ملکوں میں 1996 میں سرحد پر گشت کے دوران آتشیں اسلحے کے عدم استعمال کا معاہدہ ہوا تھا تاکہ کشیدگی کی صورت میں اس میں اضافہ نہ ہو سکے۔
بیجنگ اور نئی دہلی میں جون میں تعلقات اس وقت شدید کشیدہ ہو گئے تھے جب لداخ میں دونوں ملکوں کے غیر مسلح سپاہیوں کی جھڑپ میں بھارت کے 20 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد چین کی فوج پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے اپنے بیان میں اس بارے میں کسی قسم کی تفصیلات جاری نہیں کیں تھیں اور نہ ہی کسی چینی اہل کار کی ہلاکت کا بتایا تھا۔ البتہ بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ واقعے کی تحقیقات کرے۔
سمندر سے ساڑھے 13 ہزار فٹ بلند کوہ ہمالیہ کے اس خطے میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک وہاں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کر چکے ہیں۔
سرحد پر حالیہ صورتِ حال سے متعلق بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ مشرقی لداخ میں صورتِ حال انتہائی سنگین ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی سطح پر گہرے مذاکرات کی اشد ضرورت ہے۔
ان کے بقول بھارت چین سرحد کی صورتِ حال کو باہمی تعلقات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
وہ انگریزی روزنامہ 'دی انڈین ایکسپریس' کے ایک پروگرام میں سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار اور آن لائن میڈیا پلیٹ فارم 'نیوز نیکسٹ نیٹ ورک' کے ایڈیٹر شہاب الدین یعقوب کا کہنا ہے کہ اگر وزیرِ خارجہ خود سرحد کی صورتِ حال کو سنگین بتا رہے ہیں تو یہ واقعی تشویش کی بات ہے۔
نئی دہلی میں وائس آف امریکہ کے نامہ نگار سہیل انجم سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان اب تک ہونے والی بات چیت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح وزرائے دفاع کی ملاقات بے نتیجہ رہی اسی طرح وزرائے خارجہ کی ملاقات سے بھی کسی پیش رفت کی کوئی توقع نہیں ہے۔
چین اور بھارت کے وزرائے دفاع نے تین روز قبل روس کے دارالحکومت ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ البتہ دونوں جانب سے جاری ہونے والے بیانات سے واضح ہو رہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی ہے۔
شہاب الدین یعقوب نے کہا کہ جنوبی بحیرۂ چین میں چین پر شدید دباؤ ہے اور شاید اسی لیے وہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
ان کے بقول چین سمجھتا ہے کہ اگر لداخ میں صورتِ حال معمول پر آ گئی تو جنوبی بحیرۂ چین کا محاذ گرم ہو جائے گا۔ اس لیے چین دنیا کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے اور یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر یہ تنازع شدت اختیار کر گیا تو عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ دونوں ہمسایہ ملک 1962 میں ایک ماہ کی جنگ لڑ چکے ہیں۔ البتہ 1975 کے بعد اس سرحد پر کبھی بھی فائرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ 1975 میں ایک حملے میں بھارت کے چار اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔
اس پہاڑی خطے میں کبھی بھی سرحد کی مناسب حد بندی نہیں کی گئی۔ بہت زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہاں سرحد بے ضابطہ ہی رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے سرحد پر تعینات اہل کاروں کے لیے یہ طے تھا کہ وہ غیر مسلح رہیں گے۔
رپورٹس کے مطابق بھارت کی فوج نے اہل کاروں کے لیے ضابطے میں تبدیلی کرتے ہوئے انہیں ہتھیار رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔