امریکہ میں ایک بڑے احتجاج کی وجہ بننے والے جارج فلائیڈ کیس کا بالآخر فیصلہ آ گیا ہے۔ جیوری نے منگل کو ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کے سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاوین کو سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ جیوری کے فیصلے کا کئی نامور شخصیات نے خیر مقدم کیا ہے۔
جارج فلائیڈ کے قتل نے امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیاہ فام افراد کے ساتھ برتاؤ پر ایک نئی بحث کو جنم دیا تھا۔ پولیس اہلکار کے ہاتھوں فلائیڈ کے قتل کے بعد پولیس اصلاحات پر بھی زور دیا جا رہا تھا۔
منگل کو جیوری کے فیصلے کے بعد امریکہ سمیت کئی نامور عالمی شخصیات نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے جب کہ بعض نے کیس کے فیصلے کو اہم سنگِ میل بھی قرار دیا ہے۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے فلائیڈ کیس کے فیصلے پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جیوری کا فیصلہ آگے بڑھنے کے لیے اہم سنگِ میل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جارج فلائیڈ کو اب واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن ان کے کیس کا فیصلہ امریکہ میں انصاف کی جانب بڑھنے کے لیے ایک بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
ریاست منی سوٹا کے گورنر ٹم والز نے کہا ہے کہ آج کا فیصلہ ریاست میں انصاف کی جانب بڑھنے کے لیے اہم قدم ہے۔ ٹرائل ختم ہو گیا ہے لیکن ہمارا کام ابھی شروع ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا نے 25 مئی 2020 کو دیکھا تھا کہ جب جارج فلائیڈ کی موت ان کی گردن پر نو منٹ تک گھٹنا رکھنے سے واقع ہوئی تھی۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج جیوری نے صحیح کام کیا ہے لیکن حقیقی انصاف مزید چیزوں کا متقاضی ہے۔
ان کے بقول، "مشل اور میں نے جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ کے لیے دعائیں کی ہیں اور ہم ان تمام افراد کے ساتھ کھڑے ہیں جو ہر امریکی فرد کے لیے انصاف کی فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں جو جارج اور ان جیسے کئی دیگر افراد کو نہیں مل رہا تھا۔"
سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ اور ان کی کمیونٹی اس بات کی مستحق ہے کہ اس کے قاتل کا احتساب کیا جائے اور آج اس کا احتساب ہوا ہے۔ انہوں نے 'بلیک لائیوز میٹر' کا نعرہ بھی دہرایا۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "میں جارج فلائیڈ کی موت پر خوف میں مبتلا تھا اور آج فلائیڈ کے قتل کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ میری نیک تمنائیں جارج فلائیڈ کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیں۔
امریکن سول لبرٹیز یونین نے کہا ہے کہ ریاست منی سوٹا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سفید فام پولیس افسر کا سیاہ فام شخص کو قتل کرنے پر احتساب ہوا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آج کا فیصلہ پولیس کو قابلِ احتساب بنانے کے لیے ایک چھوٹی سی کامیابی ہے اور شاید اس سے سیاہ فام کمیونٹی کے دکھوں میں کمی آ سکے گی۔
سینیٹر رافیل وارنوک نے کہا ہے کہ میری تمام ہمدردیاں جارج فلائیڈ کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ جارج فلائیڈ تو واپس نہیں آ سکتے لیکن شکر ہے کہ آج انہیں انصاف مل گیا ہے۔
وارنوک نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ جارج فلائیڈ قتل کیس کا فیصلہ امریکہ میں تبدیلی کے لیے سنگِ میل ثابت ہو گا جہاں لوگ اس طرح کے واقعات بار بار دیکھ رہے ہیں۔
ریاستِ میری لینڈ کے گورنر لیری ہوگن نے کہا ہے کہ جارج فلائیڈ کے قتل نے ہمیں یاد دلایا تھا کہ ہمیں بطور قوم اعلیٰ خوبیاں پیدا کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب انصاف ہو گیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ فیصلہ جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ اور ان کی کمیونٹی کے لیے اطمینان بخش ہو گا۔