پاکستان کے اراکینِ پارلیمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کم عمر بچیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ اراکین پارلیمان نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن اراکین نے تحریک التوا جمع کروائی کہ جس میں کہا گیا تھا کاشانہ دارالعوام کا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ اس پر ایوان میں بجث ہونی چاہیے۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن نے کاشانہ ویلفئیر ہوم کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ مرتب کی۔
رپورٹ ابھی منظر عام پر نہیں آئی البتہ کمیشن نے پنجاب حکومت سے شکوک و شبہات دور کرنے اور حقائق کو سامنے لانے کے لیے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ لاہور کے کاشانہ ویلفیئر ہوم کی باتیں اُس وقت خبروں میں آئیں جب اُس کی سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک پیغام جاری کیا۔
افشاں لطیف نے ویڈیو پیغام میں ایک با اثر شخص کی جانب سے ‘دارالامان کاشانہ’ میں مقیم بچیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
افشاں لطیف کے پیغام کے مطابق اُن سمیت کاشانہ ویلفیئر ہوم کی دیگر بچیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے جبکہ جب انہوں نے اِس کے خلاف اپنی آواز اُٹھانا چاہی تو انہیں اور دیگر بچیوں کو مبینہ طور پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد افشاں لطیف کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
'یہ معاملہ گزشتہ چار ماہ سے چل رہا تھا'
افشاں لطیف، سابقہ سپرنٹنڈنٹ کاشانہ ہوم سابق سپرنٹنڈنٹ کاشانہ اطفال افشاں لطیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ گزشتہ چار ماہ سے چل رہا تھا۔
افشاں لطیف کے مطابق انہوں نے روّاں سال اگست کے مہینے میں ساری صورت حال وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کو بتائی لیکن انہوں نے اِس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
افشاں لطیف کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کے ‘سیٹیزن پورٹل’ پر بھی شکایت درج کرائی تھی۔ وہ سابق صوبائی وزیر اجمل چیمہ کے سامنے بیٹھ کر ثبوت سامنے لانا چاہتی ہیں۔
افشاں لطیف کا کہنا ہے کہ انصاف کے لیے انہوں نے ہر دروازہ کھٹکھٹا لیا لیکن جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو سوشل میڈیا کا رخ کیا۔
ان کے بقول اس کے بعد بھی حکومتی عہدیداروں نے اِس معاملے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
افشاں لطیف نے کہا کہ جب ہر کہیں سے انہیں انصاف نہیں ملا تو انہیں مجبوراً انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ میں نے سب جگہ جا کر دیکھ لیا۔ اپنے ادارے کو بتا کر دیکھ لیا۔ حکومتی ایوانوں میں اپنی آواز پہنچا دی، وزیراعظم کا سیٹیزن پورٹل بھی استعمال کر کے دیکھ لیا۔
ان کے مطابق انہوں نے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انہوں نے اپنی آواز نہ پہنچائی ہو لیکن کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا اور یہ انصاف صرف میرے لیے نہیں تھا۔ اُن سب بچیوں کے لیے تھا جو اِس میں نشانہ بنیں۔ جن کی شادیوں کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ اب آخر میں میں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ عدالتیں ہی انصاف دیں گی۔
کاشانہ ویلفیئر ہوم پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں یتیم اور بے سہارا بچیوں کا ٹھکانہ کاشانہ ویلفیئر ہوم ہے۔ جسے حکومتی سرپرستی میں چلایا جاتا ہے۔ کاشانہ ویلفیئر ہوم لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں واقع ہے۔ جو پنجاب حکومت کے محکمہ سوشل ویلفیئر کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔
کاشانہ ویلفیئر ہوم میں رہنے والی لڑکیوں کی عمریں پانچ سال سے لے کر 18 سال تک ہیں۔
محکمے کے مطابق اس وقت کاشانہ ویلفیئر ہوم میں بے سہارا بچیوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔
کاشانہ ویلفیئر ہوم میں بے سہارا بچیوں کو مفت رہائش دی جاتی ہے جبکہ بچیوں کو مفت تعلیم، کھانے اور کپڑے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
کاشانہ ویلفیئر ہوم میں رہنے والی بے سہارا لڑکیوں کو قریب کے اسکولوں اور کالجوں میں مفت تعلیم دلوائی جاتی ہے جبکہ فارغ اوقات میں انہیں کوئی ہنر جسے دست کاری بھی سکھائی جاتی ہے۔
پنجاب حکومت نے افشاں لطیف کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا ہے جبکہ اُن کی جگہ نئی خاتون افسر کو کاشانہ ویلفیئر ہوم کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
سابق وزیر پنجاب سوشل ویلفیئر کا مؤقف
دوسری طرف سابق صوبائی وزیر سماجی بہبود اجمل چیمہ نے افشاں لطیف کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
انہوں نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھی اِس معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
اجمل چیمہ کا کہنا تھا کہ افشاں لطیف نے بچیوں کی جبری شادی کرانے کے لیے اُن پر دباؤ ڈالے جانے کا الزام لگایا تھا۔
سابق وزیر پنجاب برائے سوشل ویلفیئر اجمل چیمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اِس معاملے کا سامنا کریں گے اور افشاں لطیف کے خلاف ہتک عزت کا دعوٰی بھی دائر کریں گے۔
اجمل چیمہ نے الزام لگایا کہ افشاں لطیف نے بیت المال میں بھی ایک سرکاری عہدیدار کے ساتھ مل کر ماضی میں کرپشن کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن سامنے آنے پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سرکاری عہدیدار کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی صورتِ حال خراب ہے: رپورٹسابق وزیر کا کہنا ہے کہ تین ماہ ہو گئے ہیں۔ میں نے سوشل ویلفیئر کی وزارت چھوڑ دی ہے۔ میرا اِس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ سب میری وزارت چھوڑنے کے بعد ہوا ہے۔
ان کے بقول ان کے بعد وہاں پر تحقیقات ہوئی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد افشاں لطیف کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
'سوشل میڈیا ویڈیوز حکومت کے خلاف پروپیگنڈا ہیں'
صوبائی وزیر قانون، پارلیمانی امور و سوشل ویلفیئر راجہ بشارت کہتے ہیں کہ کاشانہ لاہور کے حوالے سے آج کل سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز موجودہ حکومت کے خلاف محض پروپیگنڈا ہیں۔ سوشل ویلفیئر کے اداروں میں رہائش پذیر بچیاں، خواتین اور بچے ہر لحاظ سے محفوظ اور مطمئن ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راجہ بشارت نے کہا کہ درحقیقت محکمہ نے قواعد و ضوابط کے مطابق سابقہ انچارج کا تبادلہ کر دیا تھا۔ لیکن وہ دفتر کا چارج اور سرکاری رہائش گاہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی بجائے انہوں نے سابق وزیر سمیت مختلف لوگوں پر بے بنیاد الزام تراشی شروع کر دی۔
راجہ بشارت کے مطابق پولیس صرف چارج چھڑانے میں مدد کے لیے کاشانہ گئی تھی اور گرفتاری کا واویلا بھی محض ڈھونگ ہے کیونکہ جب سابقہ انچارج اور ان کے خاوند کے خلاف کوئی ایف آئی آر ہی نہیں تھی۔ تو پولیس کیسے انہیں گرفتار کر سکتی تھی۔
راجہ بشارت کا مزید کہنا تھا کہ اگر سابقہ انچارج کے کوئی تحفظات تھے تو انہیں حسب ضابطہ میرے یا سیکریٹری کے نوٹس میں لانا چاہیے تھے۔ لیکن تبادلے سے پہلے تک انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
ان کے بقول سابقہ انچارج ابھی تک کاشانہ کی سرکاری رہائش گاہ میں رہتی ہیں۔ جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے انہیں یہ رہائش گاہ نئی انچارج کے لیے خالی کر دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازم کو کسی بھی سرکاری ادارے کو اِس طرح بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ سابقہ خاتون افسر نے جو کچھ بھی کہا وہ سب غلط کہا۔ حکومت نے کسی کے بھی خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، تھانے کا ریکارڈ موجود ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ نے بھی کاشانہ ویلفیئر ہوم کا معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد اپنے ادارے کی جانب سے واقعہ کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن سمجھتے ہیں کہ جب کوئی اعلیٰ عہدیدار کسی بھی اسکینڈل میں ملوٹ ہوتے ہیں تو اُس کی کی سرکاری تحقیقات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ شفاف نہیں ہوتی۔ اسی لیے ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اس پر اپنی رپورٹ مرتب کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ہماری ٹیم وہاں گئی لوگوں کے بیانات لیے۔ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ اُنہیں بہت سے لوگوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔ جو مبینہ طور پر زیادتی کی شکار ہیں اُن سے ہماری ٹیم کو ملنے نہیں دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔
افشاں لطیف نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا بھی کی ہے۔
عدالت نے ڈپٹی کمشنر لاہور اور ڈائریکٹر بیت مال کو 12 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے تمام فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔
افشاں لطیف نے عدالت میں دی جانے والی درخواست میں چیف سیکریٹری پنجاب، ڈپٹی کمشنر اور ڈائریکٹر بیت مال کو فریق بنایا ہے۔