پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کا اثر معیشت پر پڑتا ہے وہیں اس کے اثرات سیاست پر بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے زائد کی کمی کے بعد یہ تاثر دیا گیا کہ یہ نئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی آمد کا نتیجہ ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کئی ماہ سے مسلسل کمی کے باوجود حکومت نے اگست اور ستمبر میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ اس وقت ملک کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل تھے لیکن 30 ستمبر کو جب حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تو وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کے پاس تھا۔
حکومت کے اعلان کے مطابق 30 ستمبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے زائد کی بڑی کمی کی گئی اور یہ کمی ایسے وقت میں ہوئی جب نئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے محض دو روز ہی ہوئے تھے۔
حیران کن طور پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ہونے والے معاہدے کے برخلاف پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل)بڑھانے کے بجائے اس میں پانچ روپے کی کمی کی گئی۔ اس سے قبل حکومت فی لیٹر 37 روپے 42 پیسے پی ڈی ایل وصول کررہی تھی جسے کم کرکے 32 روپے 42 پیسے کردیا گیا۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بات چیت کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کیا ہے۔
'قیمتوں میں کمی کا تعلق وزیرِ خزانہ کی تبدیلی سے نہیں'
تجزیہ کار فرحان محمود کے خیال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ بڑی کمی کا تعلق وزیرِ خزانہ کی تبدیلی سے نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافے، معاشی سرگرمیاں مانند پڑنے اور پھر سیلاب کے باعث پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں خاطر خواہ کمی سے ہے۔
حکومت نے گزشتہ مہینوں میں بڑی مقدار میں پیٹرولیم مصنوعات درآمد بھی کی تھیں اور یہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب روپے کی قدر تیزی سے گر رہی تھی اور ڈالر مہنگا ہورہا تھا۔
ان کے بقول بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی، کھپت میں کمی اور دیگر وجوہات نے حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینے کی گنجائش پیدا کر دی ہے اور یہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت کے لیے کسی حد تک سیاسی طور پر بھی تسلی بخش ہے۔
SEE ALSO: روپے کی قدر میں بہتری: ’اسحاق ڈار کے لیے ڈالر کی قیمت کم رکھنا آسان نہیں ہوگا‘معاشی تجزیہ کار ریحان عتیق کہتے ہیں آئی ایم ایف کی پیشگی منظوری سے قبل پی ڈی ایل کو کم کرنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس کے لیے 855 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے پی ڈی ایل میں کمی کا فیصلہ آئی ایم ایف سے بات کرکے ہی ممکن ہوسکا ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے اگلے ہی روز 29 ستمبر کو اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف حکام سے آن لائن میٹنگ ہوئی تھی جس میں ترجمان وزارتِ خزانہ کے مطابق وفاقی وزیر نے آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر کو ملک میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے انفرااسٹرکچر، فصلوں اور لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر ہونے والی معاشی صورتِ حال کے بارے میں بتایا تھا۔
'حکام نے آئی ایم ایف سے ریلیف کی بات کی تھی'
ریحان عتیق نے اسی ملاقات کا حوالہ دیتےہوئے کہا کہ اس ملاقات میں یقیناً وزیرِ خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ریحان عتیق کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اس انتظار میں ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو تو پیٹرول پر دوبارہ پی ڈی ایل بڑھا دیا جائے تاکہ جس قدر ممکن ہوآئی ایم ایف کا ٹارگٹ حاصل کرلیا جائے۔
بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل سمیت دیگر پاکستانی حکام نے امریکہ کے دورے کے دوران آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں کچھ ریلیف دیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس ضمن میں حکام نے آئی ایم ایف سے اپیل کی تھی کہ قرض کی آئندہ دو قسطیں ایک ساتھ فراہم کی جائیں، پیٹرولیم مصنوعات پر تین ماہ کے لیے موجودہ ٹیکس کو ہی برقرا ررکھا جائے، بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانے سمیت جاری کھاتوں اور بجٹ خسارے میں کسی حد تک گنجائش پیدا کرنے کی اجازت دی جائے۔
تاہم اب تک پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
ادھر وزارتِ خزانہ کے سابق ایڈوائز ڈاکٹر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر پی ڈی ایل میں کمی آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے مختلف ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ایندھن (پیٹرول اور ڈیزل) پر 5 روپے فی لیٹر فی ماہ بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا جس کے تحت پی ڈی ایل جنوری 2023 میں پٹرول اور اپریل 2023 ڈیزل پر 50 روپے فی لیٹر تک پہنچائی جانی ہے۔ لیکن ان کے خیال میں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں اور اس پر دونوں فریق بات چیت کرکے ہدف کو اوپر نیچے کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 2023 میں 855 بلین روپے کی مجموعی پیٹرولیم لیوی جمع کرنا افراطِ زر کے بلند ماحول کو دیکھتے ہوئے مشکل لگتا ہے۔ یہ تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب تیل کی بین الاقوامی قیمتیں مزید کم ہوجائیں۔
ڈاکٹر خاقان حسن کے خیال میں حکومت کو درمیانی مدت میں تیل کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے اور اس حوالے سے مارکیٹ کو کام کرنے دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔