پاکستان کو عالمی مارکیٹ سے گیس کی دستیابی میں مشکلات کی وجہ سے ملک میں بجلی بحران تو جاری ہے، تاہم ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بجلی پر انحصار کرنے والے کارخانے بند ہونے سے برآمدات میں کمی آ سکتی ہے۔
گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایک جانب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھے گا تو دوسری جانب دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی مہنگی ہو گی۔ لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنی برآمدات کا ہدف پورا کرنے میں بھی مالی سال کے آغاز ہی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو گزشتہ سال ہی تاریخی 48 ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے اور جاری کھاتوں میں 15 ارب ڈالرز سے زائد کے خساروں کا سامنا کرچکا ہے۔
پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 60 فی صد دارومدار ٹیکسٹائل پر ہے جب کہ پنجاب بھر میں ٹیکسٹائل صنعتوں کو گیس کی فراہمی 30 جون سے بند ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالرحیم ناصر کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو جولائی میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں 50 فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے جس کا اثر مجموعی سالانہ برآمدات میں کمی کی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔
گزشتہ مالی سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں تقریباً 26 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 48 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر رہا ہے۔
پاکستان نے مالی سال 22-2021 کے دوران عبوری ڈیٹا کے مطابق 31.85 ارب ڈالرز کی اشیا برآمد کیں جب کہ اس کے مقابلے میں 80.51 ارب ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ پاکستان کو 2014 میں ملنے والے جی ایس پی اسٹیٹس کی وجہ سے اپنی مصنوعات خاص طور پر ٹیکسٹائل کی مصنوعات یورپ میں کم ڈیوٹی میں فروخت کرنے میں کافی آسانیاں پیدا ہوئیں تھیں۔
ماہر معاشیات سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں فی الحال گیس کا بحران اور پھر اس سے جڑا بجلی کا بحران برقرار رہنے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا خمیازہ نہ صرف عام شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کی صورت میں بھگتنا ہوگا بلکہ صنعتیں بھی اس بحران کا شکار رہیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت کو جُز وقتی اور بعض کُل وقتی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گیس کی فراہمی میں پہلی فوقیت صنعتوں کے بجائے گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے جب کہ ملک میں گیس کے تیزی سے کم ہوتے ذخائر اور عالمی مارکیٹ میں گیس کی بڑھتی قیمتوں کے پیشِ نظر اب یہ مزید ممکن نہیں رہا۔
اس لیے گھریلو صارفین کو ایل پی جی اور دیگر متبادل ذرائع پر شفٹ اور مقامی گیس، صنعتوں اور بجلی بنانے والے کارخانوں کو فراہم کرنے کے لیے پالیسی بنانی ہو گی تاکہ ان کی پیداواری قیمت کم ہوسکے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال تقریباً 6 ہزار میگاواٹ ہے جو بارشوں کے موجودہ اسپیل سے پہلے تک آٹھ ہزار میگاواٹ تھا۔
حال ہی میں نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ کی 29 کلو میٹر طویل سرنگ کے ایک حصے میں خرابی سامنے آئی ہے، اس لیے وہاں سے حاصل ہونے والی 929 میگاواٹ بجلی کا مزید فقدان ہو گیا ہے۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ملک میں بجلی کا شارٹ فال بتدریج کم ہو رہا ہے اور اس سے ملک کے بڑے شہروں میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی بھی آنے لگ گئی ہے۔ لیکن وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ صفر لوڈ شیڈنگ صرف ان علاقوں ہی میں توقع کی جاسکتی ہے جہاں بجلی کے بلوں کی ادائیگی 80 فی صد سے زائد اور بجلی کا خسارہ 20 فی صد سے کم ہے۔
اسی طرح کراچی ایٹمی نیوکلئیر پاور پلانٹ سے بھی 1100 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ایک سے دو روز میں شروع ہوجائے گی جس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ بارشوں میں اضافے اور ڈیموں میں پانی بھرنے سے ملک میں پن بجلی کی پیداوار میں بھی بتدریج بہتری پیدا ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی بنانے کے صلاحیت اس کی ضرورت سے اب بھی زائد ہے لیکن جو بجلی کے کارخانے گزشتہ ادوار میں لگائے گئے تھے وہ درآمدی ایندھن پر چلائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تیل اور کوئلہ باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ انحصار کوئلے پر تھا۔ لیکن کوئلہ بھی جب مہنگا ہوگیا تو بجلی بنانے کے کارخانے اپنی استعداد سے 25 فی صد تک چلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
توانائی سے جڑے ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں تھر کے مقام پر کوئلے کے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود انہیں نئے لگائے گئے پاور پلانٹس میں استعمال میں نہیں لایا جاسکتا۔ کیونکہ یہاں سے نکلنے والے زیادہ تر کوئلے کی حرارتی قدر (کیلورک ویلیو) کم ہے جب کہ پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت لگائے گئے کوئلے کے پاور پلانٹس کو سُپر کریٹیکل ٹیکنالوجی کے حامل پاور پلانٹس ہیں جس میں بجلی حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔
تاہم اب شنگھائی پاور کمپنی کی جانب سے تھر میں 1200 میگاواٹ کا ایک اور بجلی گھر تیاری کے آخری مراحل میں ہے جو مقامی کوئلے ہی سے چلایا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے پاور پلانٹس ہی لگائے جائیں گے جو مقامی کوئلے پر ہی چل سکیں۔ درآمدی کوئلے پر چلنے والے موجودہ پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر چلانے کے لیے ان کے بوائلرز تبدیل کرنے کے لیے طویل المدت پلان بھی ترتیب دیا جارہا ہے جس میں تین سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
ماہر توانائی سعد زکر پاکستان میں بجلی کی پیداوار سے جڑے ان کیپیسٹی چارجز کو بھی قرار دیتے ہیں جو اس وقت کی حکومت نے پاور پلانٹس لگاتے وقت، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو گارنٹی کیے تھے جس کے تحت بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، پاور پلانٹ کی پیداواری صلاحیت پر بھی حکومت کو ادائیگی کرنی ہوتی ہے اور یہ کیپیسٹی چارجز ظاہر ہے بلوں کی صورت میں شہریوں ہی وصول کیے جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت نے گزشتہ سال صرف کیپیسٹی چارجز کی مد میں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو 850 ارب روپے اضافی فراہم کیے جب کہ رواں سال بھی اسے اس مد میں 1440 ارب روپے ادا کرنا ہیں۔ ایسے میں یہ بھاری رقوم، بجلی کے بلوں کی ریکوری نہ ہونے اور پھر لائن لاسز کی وجہ سے پیدا ہونے والے گردشی قرضوں کا حجم 2500 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
اس گردشی قرضے کی وجہ سے بجلی کے کارخوں کو چلانے کے لیے سپلائی چین کے بحران پیدا ہورہے ہیں جس سے بجلی کم پیدا کی جارہی ہے اور جو پیدا کی جارہی رہی ہے وہ بھی مہنگی ہے۔
تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ایل این جی کی درآمد بڑھانے کے لئے تیسرا ٹرمینل لگانے میں کئی سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جب کہ عالمی مارکیٹ میں جب سستی ایل این جی دستیاب تھی تو اس وقت کی حکومت کو اس کی خریداری کے لیے طویل المدت معاہدے کرنے چائیے تھے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شمسی توانائی کا استعمال بڑھا کر گیس اور تیل کی درآمد میں بچت کرے گی۔ اور اس کے لیے ایک جامع پالیسی تیار کی جارہی ہے جس سے اگلے سال گرمیوں کے موسم تک ملک میں سات سے دس ہزار میگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے پیدا کی جاسکے گی۔ اس سے نہ صرف درآمد شدہ ایندھن میں کمی آئے گی بلکہ اس کے ساتھ صاف اور متبادل توانائی کا حصول ممکن ہوسکے گا۔