امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر کیوں بڑھ رہی ہے؟

فائل فوٹو

گزشتہ کئی ہفتوں سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ اگست 2020 سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں 7 فی صد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اگست 2020 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت 168 روپے 43 پیسے تھی جو اب گھٹ کر 155 روپے تک آگئی ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں آئندہ دنوں میں بھی پاکستانی کرنسی کی قیمت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔

اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک کی کرنسیز پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہیں سوائے سری لنکا کے جہاں امریکی ڈالر کی قیمت 198 سری لنکن روپوں کے قریب ہے۔

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

جلال خان سعودی عرب کے شہر دمام میں قائم ایک کیمیکل فیکٹری میں ملازم ہیں۔ کرونا وبا سے قبل وہ صوابی میں رہائش پزیر اپنے خاندان کو حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ہی پیسے بھیجتے تھے۔

انہیں معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ ایک غیر قانونی طریقہ کار ہے لیکن اس میں سہولت یہ تھی کہ اس کے ذریعے رقوم بھیجنے اور وصول کرنے کے نظام پر چارجز کم اور انہیں بھیجنے کے لیے قاعدے قانون کم تھے۔ ایک روز میں زیادہ سے زیادہ پیسے بھیجنے پر بھی کوئی حد مقرر نہ تھی جب کہ بعض جگہوں پر تو ہنڈی والے گھر جا کر پیسے کی ادائیگی کرتے تھے۔

لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ایک تو بیرون ملک سے آمدو رفت میں کمی واقع ہوئی اور یوں حوالے اور ہُنڈی کے ذریعے رقوم بجھوانے میں بھی مشکلات میں کچھ اضافہ ہوا۔

SEE ALSO: پاکستان میں سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ، ملکی ترقی کی علامت؟

گزشتہ برس ستمبر میں پاکستان کی حکومت نے 'روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ' نامی ایک اسکیم متعارف کرائی جس کے ذریعے آپ دنیا بھر میں بیٹھ کر کہیں سے بھی گھروں کے مختلف بلز، اسکول کی فیسز اور اپنے بینک اکاؤنٹس میں پیسے منتقل کر سکتے ہیں۔

جلال خان کے مطابق اسمارٹ فون کے دور میں گھر پیسے بھیجنے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اور انہوں نے بھی قونصلیٹ کا رُخ کیے بغیر ہی آن لائن اکاؤنٹ کھلوایا جو دو روز میں بغیر کسی پریشانی کے فعال ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ ان اکاؤنٹ ہولڈرز کو بلند شرح سود پر منافع بھی مل رہا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق جلال جیسے ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے اب یہ اکاؤنٹس کھلوا لیے ہیں جن سے ملک کے اندر بینکنگ چینل سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں پچھلے آٹھ ماہ کے دوران 24 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ رقم سال کے اختتام پر 25 ارب ڈالرز سے زائد ہو جائے گی۔

فاریکس ڈیلر ملک بوستان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ' کا تجربہ کافی کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اگر اس میں سے پانچ فی صد یعنی پانچ لاکھ لوگوں نے بھی اپنے اکاؤنٹ 'روشن ڈیجیٹل' میں کھلوائے اور پیسے بھیجنا شروع کیے تو یہ رقم ماہانہ چار سے پانچ ارب ڈالرز تک باآسانی جاسکتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ڈالر بھیجنے والے پاکستانی روپے کی قدر گھٹنے پر خوش؟

بیرونِ ملک مقیم ورکرز کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں پاکستان اس وقت چوتھے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں بھارت کا پہلا نمبر ہے جسے بیرونِ ملک سے 76 ارب ڈالرز سالانہ بھیجے جاتے ہیں۔ جب کہ 60 ارب ڈالرز کے ساتھ چین دوسرے اور 33 ارب ڈالرز سالانہ ترسیلاتِ زر کے ساتھ فلپائن تیسرے نمبر پر ہے۔

کیا قرضوں کی ادائیگی پر ملنے والی رعایت بھی روپے کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ ہے؟

ملک بوستان کہتے ہیں روپے کی قدر میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قرضے کی دوسری قسط ملنے پر اتفاق ہوجانا بھی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے بیشتر اہداف رواں ماہ مکمل کرنے کی تیاری کر لی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ 24 مارچ کو اس پروگرام کے تحت 50 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔

اُن کے بقول خام تیل خریدنے کے لیے بین الاقوامی اسلامک فنانس ٹریڈ کارپوریشن کی جانب سے قرضے کی منظوری، 700 ملین ڈالر کے قرضے جون تک مؤخر ہونے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو واجب الادا ایک ایک ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی میں رعایت ملنے سے بھی پاکستانی روپے کو کافی سپورٹ ملی ہے۔

روپے کی قدر میں اضافہ وقتی ہے یا دیرپا؟

فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق سے تو ایسا لگتا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ دیرپا ہے وقتی نہیں۔ ان کے بقول ہماری معیشت کا بڑا دار و مدار برآمدات اور ورکرز کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر سے ہونے والی آمدن پر ہے اور تیسرا اس فرق کو مٹانے کے لیے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ برآمدکنندگان کو روپے کی کم اور ڈالرز کی بلند قیمت سے چوں کہ فائدہ ہوتا ہے اس لیے ان کی جانب سے حکومت پر یہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ ڈالر کی قیمت کو مزید اوپر ہی رکھا جائے۔

ظفر پراچہ کہتے ہیں اس وقت پاکستانی روپیہ خطے میں سب سے کمزور ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہماری ایکسپورٹ بہت زیادہ نہیں بڑھیں۔ ان کے خیال میں ایکسپورٹرز کو بہت زیادہ مراعات لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔ اگر ایکسپورٹرز کی جانب سے حکومت پر مراعات کا دباؤ نہ آیا تو ڈالر کا ریٹ برقرار رہے گا۔

ماہر معاشیات اور تجزیہ کار فرخ سلیم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ ترسیلاتِ زر میں یہ اضافہ پائیدار ثابت ہوگا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ترسیلاتِ زر تین اقسام کی آتی ہیں۔ ایک بینکنگ چینلز کے ذریعے، دوسرا نان بینکنگ چینلز اور تیسرا جب کوئی شخص کسی تہوار پر ملک آتا ہے تو وہ کچھ رقم پاکستان لے آتا ہے۔

SEE ALSO: اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا فیصلہ، کیا حکومت کا اثرو رسوخ کم ہو گا؟

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق صرف 33 فی صد رقوم بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان لائی جاتی ہیں جب کہ باقی 67 فی صد باقاعدہ چینلز کے بغیر ہی پاکستان منتقل کی جاتی ہیں۔

فرخ سلیم کے بقول کرونا وبا کے دوران لوگوں نے بیرونِ ملک سے آنا جانا کم کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ رقوم جو پہلے نان بینکنگ چینل کے ذریعے آتی تھیں وہ بھی بینکس کے ذریعے ہی منتقل کی جارہی ہیں اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ترسیلاتِ زر بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں ترسیلات بڑھی نہیں بلکہ وہ پیسہ جو نان بینکنگ چینلز حوالہ، ہُنڈی کے ذریعے آتا تھا وہ اب بینکوں کے ذریعے لایا جارہا ہے۔

فرخ سلیم کہتے ہیں ملک کی 50 فی صد ترسیلات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آتی ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس لیے ان کے بقول مجموعی طور پر ترسیلات میں اضافہ دیرپا نظر نہیں آتا۔

'اسٹیٹ بینک کا مثبت کردار بھی خوش آئند ہے'

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی بینک کی جانب سے بہتر اقدامات کی بنا پر ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ دو سال سے کی جانے والی ٹھوس کوششوں کے ثمرات اب آنا شروع ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانا ہو یا پھر بیرون ملک سے رقم منگوانی ہو، یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس مد میں خرچ کی جائے گی۔ جو پیسہ روایتی طور پر حوالہ ہنڈی کے ذریعے آتے تھے اب وہ پیسہ اسٹیٹ بینک کی وجہ سے باقاعدہ بینکنگ چینل کے ذریعے آنے لگا ہے۔