پاکستان کے صوبۂ سندھ کے شہر نواب شاہ میں اتوار کی دوپہر کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی بوگیاں الٹ گئیں جس کی وجہ سے کم از کم 29 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق حادثہ سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔
حادثے کے باعث اپ اور ڈاؤن ٹریک کو ریلوے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے جب کہ روہڑی اسٹیشن سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ پر روانہ کر دی گئی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں کسی ٹرین کو حادثہ پیش آیا ہے۔ تاہم جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے۔
ماہرین ریلوے ٹریکس کی خستہ حالی اور روایتی اور برسوں پرانے ریلوے نظام کو حادثات میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ٹرین حادثات کی وجوہات
پاکستان ریلوے کے سابق چیف ایگزیکٹو افسر اعجاز بریرو کی رائے میں ہر حادثے کی وجوہات الگ الگ ہوتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز بریرو نے کہا کہ پاکستان میں ریلوے کے نظام میں مسلسل دیکھ بھال اور مرمت کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر یہ مناسب انداز میں ہوتی رہے تو حادثات کا احتمال کم رہتا ہے۔
اُن کے بقول حادثہ اسی وقت ہوتا ہے جب تین چار وجوہات جمع ہوں کیوں کہ ماضی میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی ایک وجہ کسی بھی ریل گاڑی کے پٹری سے اُترنے یا حادثے کی وجہ نہیں بن سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لودھراں سے سکھر تک خستہ حال ٹریک
اعجاز بریرو کے مطابق پاکستان میں لودھراں سے سکھر تک کے ریلوے لائن پر زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول پورے ملک کے ریلوے ٹریکس کی مرمت کا کام جاری رہتا ہے جب کہ ضرورت پڑنے پر ٹریک اپ گریڈ بھی کیا جاتا ہے۔
ریلوے کے ایک سابق ٹریفک کنٹرول نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لودھراں سے سکھر ٹریک کے حوالے سے شکایات عرصۂ دراز سے سامنے آتی رہی ہیں۔
اُن کے بقول حکومت اس سیکشن کی طرف توجہ دینے کے بجائے چین، پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ایم ایل ون منصوبہ کا انتظار کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ ایم ایل ون کے تحت پشاور سے کراچی تک نیا ٹریک بچھانے کا منصوبہ ہے جو سی پیک کا حصہ ہو گا۔
سابق ٹریفک کنٹرولر کے مطابق جب تک اِس حصے پر سرمایہ کاری نہیں ہو گی ریلوے کا ٹریک ٹھیک نہیں ہو گا۔ ان کے بقول سکھر کے ٹریک کی حالت بہت خراب ہے اور اِس ٹریک پر روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی خامی سامنے آتی رہتی ہے۔
اُن کے بقول جب بھی کوئی ٹریک کمزور ہوتا ہے تو وہاں پر ریل گاڑی کی رفتار کو آہستہ کر کے گزارا جاتا ہے، لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
ماضی کی انکوائریاں
سابق ٹریفک کنڑولر کے مطابق ماضی میں ٹرین حادثات کی ہونے والی انکوائریاں، انکوائری رپورٹ کم اور الزام تراشی زیادہ رہی ہے جس میں حکام ایک دوسرے پر ذمے داریاں ڈالتے رہے ہیں۔
اُن کے مطابق دنیا بھر میں کسی بھی حادثے کے بعد افراد کو موردِ الزام ٹھیرانے کے بجائے نظام میں موجود خامیوں کی نشان دہی کر کے اُن کی اصلاح کی جاتی ہے۔
اُن کے مطابق کسی بھی حادثے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور اُس میں کی گئی سفارشات پر من و عن عمل بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان میں مسافر ریل گاڑیوں کو پہلے بھی کئی حادثات پیش آ چکے ہیں۔ جن میں کئی بڑی نوعیت کے جب کہ بہت سے دیگر حادثات شامل ہیں۔
اکتوبر 2019 میں پیش آنے والے خوفناک حادثے میں رحیم یار خان کے قریب تیز گام میں بھڑکنے والی آگ کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی 2019 میں اکبر ایکسپریس رحیم یار خان کے قریب مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں 20 مسافر ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے تھے۔
محکمہ ریلوے کے ریکارڈ کے مطابق حادثات سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اِسی طرح نومبر 2016 میں کراچی کے لانڈھی ریلوے اسٹیشن دو ٹرینیں آپس میں ٹکرانے سے 31 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
نومبر 2015 میں گوجرانوالہ کے قریب ٹرین نہر میں جا گری تھی جس کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔
جولائی 2013 میں خان پور کے قریب ٹرین اور رکشے کے تصادم کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔