شام میں حلب کے جنوب میں واقع دیہاتی علاقوں میں شامی فوج اور باغیوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔
دن میں روسی جنگی جہاز فضائی کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر زمینی فوج پیش رفت کرتی ہے اور باغیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے، مگر رات میں فضائی کارروائیوں کی غیر موجودگی میں پسپا ہوئے باغی دوبارہ ان علاقوں میں گھس جاتے ہیں۔
اگلے دن پھر فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور رات میں باغی پھر سے عارضی دفاعی مورچے سنبھال لیتے ہیں۔
امریکی حمایت یافتہ احفد عمر بٹالین کے کمانڈر عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دو سال میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی زمینی کارروائی کی گئی ہے۔
’’روسی ہر چیز کو جلا رہے ہیں اور ہموار کر رہے ہیں۔ روزانہ 50 سے 60 فضائی کارروائیاں ہوتی ہیں۔‘‘
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں ایک درجن سے زائد کمانڈروں نے تسلیم کیا کہ روس کی مداخلت سے شمالی شام میں ساحلی صوبے لاذقیہ سے لے کر حماہ، ادلب اور حلب صوبوں تک جنگ کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔
انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ اگر انہیں باغیوں کا اتاپتا معلوم ہو تو وہ شام کی ’’محب وطن حزب اختلاف‘‘ کے یونٹوں کی مدد کے لیے تیار ہے، خصوصاً ’فری سیرین آرمی‘ کی۔
عبدالرحمٰن نے کہا کہ ’’وہ جانتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ وہ ہمیں پر بم برسا رہے ہیں۔‘‘
صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے برسرپیکار باغیوں کا اصرار ہے کہ ان کی کوششیں ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ شام میں سیاسی حل تبھی ممکن ہے جب صدر اسد ان کی سکیورٹی فورسز اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں اقتدار چھوڑ دیں۔
تین ہفتے تک روسی بمباری اور زمینی حملے سہنے کے بعد باغی مطمئن ہیں کہ اب تک ان کے ہاتھ سے جنوبی حلب کے صرف پانچ دیہات گئے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ صدر اسد کی فورسز تعمیرات والے شہری علاقوں پر حملے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں کیونکہ باغی شہروں میں جنگ کے ماہر ہیں۔ انہیں شبہ ہے کہ حکومتی فورسز ادلب شہر اور باغیوں کے قبضے میں حلب کے علاقوں کو محصور کر کے انہیں فاقوں سے مارنا چاہتی ہیں، جیسا انہوں نے حمص میں کیا تھا۔
شامی فضائیہ کے ایک منحرف فوجی نے کہا کہ ’’اسد حکومت جانتی ہے کہ وہ شہروں میں نہیں لڑ سکتے۔ اس لیے وہ دیہات میں جنگ کر رہے ہیں۔‘‘
باغی اب تک دو وجوہات کی بنا پر روسی اور ایرانی حمایت یافتہ شامی فوج کے خلاف قدم جما کر رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک ٹینک شکن میزائل اور دوسری باغیوں کی صفوں میں نئی بھرتیاں۔
روسی مداخلت سے کئی ماہ قبل کمانڈروں کو نئے جنگجو بھرتی کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا مگر روسی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد دیہاتی علاقوں میں مقامی افراد باغیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اسی طرح ترکی میں مقیم مہاجرین میں کئی نوجوان بھی باغیوں کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں جن میں 15 سال کی کم عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد ٹینک شکن میزائلوں کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ حماہ اور ادلب میں باغیوں کو یہ میزائل ترکی میں قائم ملٹری آپریشنز سینٹر کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں جسے امریکہ سمیت 11 ممالک کی مدد حاصل ہے۔ کئی باغیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ٹینک شکن میزائلوں کی مسلسل فراہمی کی ضرورت ہے۔