دنیا کے بیشتر ممالک میں آزادی صحافت کو شدید حملوں کا سامنا ہے اور حکام نے اپنی کارکردگی کے ناقدین کی زبانوں پر تالے لگانے کے لیے انہیں جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔
صحافیوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 274 صحافی قید و بند کی صعوبتوں سے گزر رہے ہیں۔
آزادی رائے کو کچلنے والے ممالک میں چین، ترکی، مصر اور سعودی عرب سر فہرست ہیں۔
تنظیم کے پانچویں سالانہ سروے کے مطابق یہ مسلسل پانچواں سال ہے کہ 250 سے زائد صحافی جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں۔
سی جے پی کے مخفف سے جانے والی تنظیم کے ایڈووکیسی ڈائریکٹر کورٹنی ریچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2020 بدترین سال ہونے کی ایک وجہ کرونا کی عالمی وبا کا پھیلاؤ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کو آزادانہ رپورٹ لکھنے کی پاداش میں جعلی خبریں لکھنے کے الزامات اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ مظاہروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز اکثر صحافیوں کو زیر حراست لینے سے ہوتا ہے۔
اس سال کم از کم 34 صحافیوں کو دنیا بھر میں جعلی خبریں دینے کے الزام لگا کر گرفتار کیا گیا۔ ان اعداد و شمار میں مصر میں 27 میں سے 22 صحافیوں کو اس قسم کے الزامات کے تحت قید کیا گیا ہے۔
مصر اور ہندورس میں دو صحافی کرونا وائرس میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے جب کہ کرغزستان سے تعلق رکھنے والے تیسرے صحافی عزیم جان اسکاروو کے خاندان نے کہا ہے کہ جیل میں ان کی موت بھی کرونا کے باعث ہوئی۔
آزادئ رائے کی علمبردار تنظیموں نے حکام سے اپیل کی کہ وہ وبا کے خطرات کو دیکھتے ہوئے صحافیوں کو رہا کریں کیونکہ انہیں جیل میں رکھنے کی سزا پھانسی دینے کے مترادف ہے۔ جیلوں میں قید ان صحافیوں کو کووڈ نائنٹین سے بچاؤ کے ساز و سامان کی سہولت میسر نہیں اور جیلیں وائرس پھیلانے کا مقام ہیں۔
ایران میں 15 صحافی اپنے فرائض انجام دہی کی سزا جیلوں میں بھگت رہے ہیں۔ ان میں سے ہفتے کے روز ایک صحافی روح اللہ زم کو 2017 میں ہونے والے مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
زم کا تعلق اماد نیوز سے تھا اور وہ فرانس میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے تھے لیکن حکام نے انہیں ان کے عراق میں دورے کے دوران حراست میں لے لیا اور 2019 میں انہیں ایران لے گئے۔
زم کو پھانسی کی سزا دینے کے رد عمل میں پیر کو امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے اس اقدام کو غیر منصفانہ اور ظالمانہ قرار دیا۔
اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ویت نام ہے جہاں اس وقت 15 صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور تمام کو ریاست مخالف ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔
ویت نام میں قید صحافیوں میں وائس آف امریکہ کے لیے کام کرنے والے لی آنہ ہنگ اور فام چی ڈنگ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ تین صحافیوں کا تعلق ریڈیو فری یورپ ایشیا سے ہے جن میں نگوئن ٹوانگ تھوئی، نگوئن وین ہوا اور ٹروانگ ڈوئی نہات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے سی پی جے کی رپورٹ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوفناک قرار دیا اور کہا کہ میڈیا سے وابستہ کارکن اور صحافی لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں اطلاعات پر مبنی فیصلہ سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ایسے وقت میں کہ جب دنیا عالمی وبا سے نبرد آزما ہے، ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ صحافیوں کے کام کی ہمارے زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کے تناظر میں اہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘‘
سی پی جے کے اعداد و شمار دسمبر کی پہلی تاریخ تک صحافیوں کے جیلوں میں ڈالنے والی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔
امریکہ میں اس سال نسلی ناانصافیوں اور صدارتی انتخابات کے ضمن میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں 117 صحافیوں کو مختصراً حراست میں لیا گیا۔
’’یو ایس پریس فریڈم ٹریکر‘‘ نامی اشاعت کی مدیر اعلٰی کرسٹین مکڈن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ احتجاج کے مقامات صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مئی کی 25 تاریخ کو ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپیلس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت ہوئی۔ اگلے ہی روز ہونے والے مظاہروں کے دوران پہلے صحافی پر حملہ کیا گیا جبکہ 29 مئی کو پہلے صحافی کو حراست میں لیا گیا۔‘‘
ان کے بقول زیادہ تر مواقعوں پر صحافیوں نے اپنی پریس کے ممبر کے طور پر شناخت کروائی لیکن انہیں پھر بھی پکڑا گیا اور ان کے چہروں پر ترش مواد پھینکا گیا۔
کرسٹین نے کہا کہ ’’ہمیں صحافیوں نے بتایا کہ ان کے پریس پاس انہیں پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے کے دوران نہ بچا سکے‘‘ ان کے بقول صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ بہتر پیغام رسانی کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے پولیس چیفس کی بین الااقوامی ایسوسیشن نے کہا کہ وہ صحافیوں کی حفاظت کا خیال کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر بیلاورس اور ایتھیوپیا کے ممالک میں بد امنی کے دوران صحافیوں کی پکڑ دھکڑ کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ بیلاروس میں دس جب کہ ایتھیوپیا میں سات صحافیوں کو زیرحراست لیا گیا۔
میڈیا کے معاملات پر نظر رکھنے والی واچ ڈاگ تنظیم ’’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘‘ نے پیر کے روز اپنے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس میں میڈیا سے منسلک 370 اراکین کو حراست میں لیا گیا یا انہیں یرغمال بنایا گیا۔ ان میں سے آٹھ صحافی ابھی بھی قید ہیں۔
پہلے ہی آزاد صحافی ناموافق ماحول میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن اگست میں ہونے والے الیکشن کے بعد بیلاروس میں ان کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
ان گرفتاریوں کے صحافیوں پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے اور بیرون ممالک سے آئے صحافیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔
’’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘ تنظیم کے مطابق ’’عالمی وبا نے صحافت پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں اور یہ بات ناقابل قبول ہے کہ سچ کی تلاش میں صحافیوں کو اپنی آزادی سے قیمت چکانا پڑی ہے۔‘‘
ان دو بڑی تنظیموں نے چین کو صحافیوں کو جیل بھیجنے والے ممالک میں سر فہرست رکھا ہے۔ سی پی جے کی ایڈووکیسی ڈائریکٹر راچ کہتے ہیں کہ عالمی وبا کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سمیت چین نے بین الااقوامی صحافیوں خصوصاً امریکییوں کو ملک بدر کیا۔
علاوہ ازیں وہ کہتے ہیں کہ چین کے قومی سلامتی کے قانون کے ہانگ کانگ میں نفاذ اور بیرون ممالک سے آنے والے صحافیوں کو ویزا دینے کے معاملے پر بیجنگ کی بظاہر مداخلت نے آزادی رائے کو کچل ڈالا ہے۔