ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ منگل کے روز انسانی ہمدردی کی امداد لے جانے والا قافلہ اس وقت فائرنگ کی زد میں آ گیا جب وہ ایک اسپتال اور فلسطینی ہلال احمر کو سامان پہنچانے جا رہا تھا۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس( آئی سی آر سی) کے غزہ میں ذیلی وفد کے سربراہ ولیم شومبرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہاں ایسے حالات نہیں ہیں جس میں انسانی ہمدردی کی امداد سے متعلق اہل کار کام کر سکیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فائرنگ کس نے کی تھی۔
شومبرگ کا کہنا تھا کہ ’’ ہم یہاں ضرورت مند شہریوں کے لیے فوری نوعیت کی امداد پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ اہم امداد طبی مراکز تک پہنچ سکے، بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ایک قانونی ذمہ داری ہے۔
آئی سی آر سی نے کہا کہ پانچ ٹرکوں اور دو گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ القدس اسپتال سمیت صحت کے مراکز کے لیے سامان لے کر جا رہا تھا۔فائرنگ سے ایک ڈرائیورمعمولی زخمی ہوا، اور دو ٹرکوں کو نقصان پہنچا۔
امدادی قافلے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور وہ الشفا اسپتال تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا، جہاں اس نے سامان دے دیا۔ اس کے بعد امدادی قافلے نے شدید زخمی مریضوں کو چھ ایمبولینسز کے ساتھ مصر کی سرحد سے منسلک رفح کراسنگ تک پہنچایا۔
گزشتہ دنوں شمالی غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والا ایک اسکول بھی حملے کا نشانہ بنا جس سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ وہ ان ساڑھے پانچ ہزار افراد میں شامل تھا جنہوں نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔ اس حملے میں دیگر 9 افراد زخمی بھی ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے 21 اکتوبر کو محدود امداد کی فراہمی کی اجازت ملنے کے بعد حماس کےزیر کنٹرول غزہ کی پٹی میں امدادی سامان پہنچ گیا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 500 ٹرکوں کے ذریعے صرف خوراک، پانی اور طبی سامان پہنچایا گیا ہے لیکن اسرائیل کے محاصرے میں نرمی کے بعد سے غزہ کی پٹی میں ایندھن فراہمی کی اجازت نہیں ہے۔
7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے سے قبل سامان کے ٹرک اتنی تعداد میں روزانہ غزہ میں آتے تھے۔
اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 240 کو یرغمال بنا لیا گیاتھا، جب کہ اس بڑے حملے کے ایک ماہ بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی میں ، حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ کی قیمت خواتین اور بچے چکا رہے ہیں
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے کہا ہے کہ جنگ کی وجہ سے غزہ اور اسرائیل میں شہریوں کو شدید مصائب اور نقصانات کا سامنا کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اور اس لڑائی کو روکنے کی ضرورت ہے۔
آئی سی آر سی کے صدر مرجاناسپولیجارک نے کہا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ اذیت بچوں کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کر کے یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
غزہ میں بین الاقوامی ریڈ کراس کے سرجن ان چھوٹے بچوں کا علاج کر رہے ہیں جن کی جلد بڑے پیمانے پر جھلس چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے منگل کو ایک بار پھر یرغمالوں کی رہائی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے اپنی اپیل کو دوہرایا۔
اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے پاپولیشن فنڈ کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً 50 ہزار حاملہ خواتین اورلگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار نوزائیدہ بچے ہیں، لیکن، اب تک، ان کے لیے زچگی کے سامان کے صرف دو ٹرک بھیجنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے کی ڈائریکٹر نتالیہ کینم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس ان حالات میں روزانہ 180 خواتین بچوں کو جنم دے رہی ہوں تو ان کے لیے خوراک، پانی، ادویات اور بچے کی پیدائش سے منسلک سرجری کی سہولت اور نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کا انحصار ایندھن کی دستیابی پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پانی صاف اور محفوظ ہونا چاہیے۔
اسرائیل نے غزہ میں ایندھن کے داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس فوجی مقاصد کے لیے ایندھن کا ذخیرہ کر رہی ہے ۔
جب کہ نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ یہ چیزیں زندگی بچاتی ہیں۔ یہ بہت اہم ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی لڑائیوں کے دوران بھی چلتی رہتی ہے۔اور ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حمل اور ولادت کے وقت یہ چیزیں ان کے پاس ہوں۔
(مارگریٹ بشیر، وی او اے نیوز)