گوانتانامو بے میں امریکہ کی جانب سے مبینہ دہشت گردوں کو قید میں رکھنے اور مقدمے چلانے کے لیے قائم کیے جانے والے حراستی مرکز کو بیس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر ہیومن رائٹس واچ اور ریڈ کریسنٹ جیسے حقوق کے عالمی ادارے اس حراستی مرکز میں مبینہ خلاف ورزیوں کا احاطہ کرتے ہوئے یہاں موجود باقی ماندہ قیدیوں کی منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گوانتا ناموبے کے اس حراستی مرکز میں ان غیر ملکی مسلمان مردوں اور نو دیگر بالغوں کو قید رکھا گیا جن پر عالمی دہشت گردی کا الزام تھا۔ یہ مرکز امریکہ پر نائن الیون کے دہشت گرد حملوں میں ملوث افراد کے لیے بنایا گیا تھا اور اس میں رکھے جانے والے زیادہ تر افراد افغانستان سے گرفتار کر کے لائے گئے تھے۔
گوانتانامو بے کے قیام کے بیس سال مکمل ہونے پر ہومین رائٹس واچ اور براؤن یونیورسٹی کے کاسٹ آف وار پراجیکٹ پروگرام نے اپنی جاری کردہ رپورٹس میں بتایا ہے کہ حراستی مرکز میں دو عشروں کے دوران کس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی رہیں اور بیس سال کے بعد بھی وہاں کئی لوگ بغیر مقدمہ چلے قید و بند کی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق گیارہ جنوری 2002 کو اس مرکز کے قیام کے بعد سے یہاں کم و بیش780 مسلمان مردوں اور لڑکوں کو لایا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں فوجی قیدخانوں میں ہزاروں مسلمانوں کو قید رکھا۔ تاہم واشنگٹن گوانتانامو بے سمیت مختلف حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
SEE ALSO: گوانتانامو کا پاکستانی قیدی، جیوری کے ارکان کی جانب سے رحم کی اپیلرپورٹ کے مطابق بیس سال کی اس مدت کے دوران امریکہ نے گوانتانامو بے سے کئی قیدیوں کو واپس بھیج دیا ہے، لیکن وہاں اب بھی 39 مسلمان قیدی رہ رہے ہیں جن میں سے 27 کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقدمہ چلانے کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ جن افراد پر نائین الیون کی دہشت گردی کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، انہیں بھی ابھی تک عدالت میں نہیں لایا جا سکا۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی اور اس سلسلے میں اخراجات کا تخمینہ پانچ اعشاریہ 48ٹرلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں قیدیوں کو رکھنے پر سالانہ5 کروڑ ڈالر خرچ کیے جاتے رہے۔
رپورٹ کے مصنفین نے بائیڈن انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کو بند کر دے اور آئندہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اہم اصلاحات کرے جن میں بڑے پیمانے پر شفافیت لانا بھی شامل ہو۔
انٹرنشل ریڈ کریسنٹ کمیٹی کا بھی قیدیوں کی منتقلی کا مطالبہ:
گوانتا نامو بے جیل کو بیس سال مکمل ہونے کے موقع پر انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی (ہلال احمر) نے بھی کیوبا میں واقع حراستی مرکز گوانتانامو بے میں رکھے گئے باقی ماندہ قیدیوں کے بارے میں گہری تشویس کا اظہار کیا ہے اور جو کئی برسوں سے یہاں مقیم ہیں اور جن کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔
بین الاقوامی ادارے نے منگل کو جاری اپنے ایک بیان میں امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان تمام قیدیوں کو بلا تاخیر باہر منتقل کرے جو منتقلی کے اہل ہیں اور اس ضمن میں ان کی عزت نفس، تحفظ اور معاشرے میں دوبارہ انضمام کے موقعوں کا خیال رکھا جائے۔
ہلال احمر کمیٹی نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ گوانتاناموبے میں آج بھی ایسے قیدی موجود ہیں جنہیں کم از کم دس سال پہلے منتقل کر دیا جانا چاہیے تھا۔
ہلال احمر کمیٹی کے سربراہ پیٹرک ہیملٹن نے جو ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کر رہے ہیں، ایک بیان میں کہا ہے کہ ان قیدیوں کو آج ہی منتقل کر دیا جانا چاہیے۔
’’یہ قیدی اب اس اہلیت تک پہنچ چکے ہیں جہاں امریکی حکومت کو انہیں آج ہی منتقل کر دینا چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ 20 برسوں پر محیط گوانتانامو بے کے ایک سو سے زیادہ دوروں کے دوران ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ان قیدیوں کو جتنا وقت یہاں لگ رہا ہے، وہ اور ان کے گھر والے اتنی ہی زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی بنیادوں پر ان لوگوں کو منتقل کیا جانا ضروری ہے جو منتقلی کے اہل ہو چکے ہیں۔ اور ان لوگوں کی گوانتانامو بے سے رخصتی میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی ہلال احمر کمیٹی، انسانی فلاح پر کام کرنے والی ایک غیر جانبدار تنظیم ہے۔ 1949 کے جینیوا کنونشن کے تحت اس تنظیم کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قیدیوں اور جنگی قیدیوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے حراستی مراکز کا دورہ کر سکے اور قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا جائزہ لے سکے۔ یہ تنظیم دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک اور علاقوں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔
کمیٹی کی طرف سے ادارے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ہلال احمر کمیٹی نے گوانتانامو بے جیل کا پہلی مرتبہ دورہ 18 جنوری 2002 میں کیا تھا اور ملاقات پر راضی قیدیوں سے علیحدگی میں ملاقات کے بعد امریکی حکام کے ساتھ مل کر ان کے تحفظات دور کیے تھے۔