پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بعض ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اطلاعات پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
اگرچہ ان ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے متعلق اب تک سرکاری سطح پر کچھ نہیں بتایا گیا لیکن ایک اہم ترین قانونی عہدے پر فائز ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخر الدین ابراہیم نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کی تصدیق حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے کر دی ہے اور اسی بناء پر وہ احتجاجاً مستعفی ہو رہے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل، اٹارنی جنرل کے بعد اعلیٰ ترین حکومتی لاء افسر ہوتا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کو بھیجے گئے اپنے استعفے میں زاہد فخر الدین ابرہیم نے کہا ہے کہ انہیں بعض ججز کے خلاف جوڈیشل ریفرنس بھیجنے کی خبر پہلے پریس سے ملی۔ اس ریفرنس کا مقصد سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں تعینات بعض سینئر ججز کے خلاف ان کے غیر اعلانیہ اثاثوں کی تحقیقات کرنا بتایا گیا ہے۔
زاہد ابراہیم کے استعفے کے متن میں کہا گیا ہے کہ اس میں سے ایک ریفرنس سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج کے خلاف دائر کیا جا رہا ہے، جنہیں ان کی ایمانداری پر ناقابل مواخذہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس کے خلاف حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظر ثانی درخواست دائر کر کے اپنے خیالات کا اظہار پہلے ہی کر دیا ہے۔
زاہد ابراہیم کا اشارہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب ہے، جنہوں نے جسٹس مشیر عالم کے ساتھ مل کر فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔ اس فیصلے میں حکومت وقت کے ساتھ، پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے دھرنے میں خلاف قانون کردار پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔ فیصلے میں چیف آف آرمی اسٹاف کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں، جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی تھی۔
لیکن اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے میں سے فوج اور خفیہ ایجنسی سے متعلق سطور خارج کی جائیں کیونکہ اس سے فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے گا اور فوج کے حوصلے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
زاہد ابراہیم نے اپنے استعفے میں مزید کہا ہے کہ ان کے خیال میں ریفرنس دائر کرنے کا مقصد ججز کا احتساب نہیں بلکہ یہ ایک شخص کی شہرت کو نقصان پہنچانے، عدلیہ کو دھمکانے اور آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔
زاہد ابراہیم کا کہنا ہے کہ اگر اس عمل کی مزاحمت نہ کی گئی تو یہ عمل عدلیہ کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور ہماری نوخیز جمہوریت کی اساس ہے۔
زاہد ابراہیم کے مطابق وہ اس صورت حال میں اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتے اور اسی لیے اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ زاہد ابراہیم کے والد اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے بھی ماضی میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی جانب سے جاری کردہ عبوری آئینی حکم کے تحت مارچ 1981 میں حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، جس پر انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ لیکن وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں آمر کے خلاف ڈٹ جانے والوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔
سیاسی شخصیات بھی حکومت کے اس فیصلے کو عدالتی آزادی پر حملے کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے سینئر ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی خبروں پر سخت الفاظ میں تنقید اور مذمت کی ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والے ججز کو حکومت عدالتوں سے نکال کر اپنے سلیکٹڈ ججز لگانا چاہتی ہے۔ حکومت ایسے ججز سے خوفزدہ ہے۔ ان کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ ہر عہدیدار، اپوزیشن اور صحافی بھی ان کی پسند کا ہونا چائیے لیکن ہمیں ایسی سلیکٹڈ حکومت نامنظور ہے۔
پاکستان میں ججز کے خلاف حلف کا غلط استعمال کرنے پر ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جاتی ہے، جس کے تحت صدر مملکت کسی بھی جج کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم یہ کونسل صدر کی جانب سے بھیجے گئے مواد کی تحقیقات کر کے اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ جج جس کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا ہے، اپنے عہدے پر کام کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔ اگر سپریم جوڈیشل کونسل اس پر نفی کا فیصلہ دے تو اس کے بعد صدر مملکت جج کو عہدے سے فارغ کر سکتے ہیں۔ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے جج کو اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے نکالا نہیں جا سکتا۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس سے متعلق پھیلی ہوئی خبروں کے بارے میں صدر کو خط لکھ کر استفسار کیا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہے تو انہیں بھی اس کی نقل فراہم کی جائے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے جسٹس فائز سے منسوب خط میں کہا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس کی خبریں ان کی کردار کشی کے مترادف ہیں اور یہ میرا فیئر ٹرائل حق ہے جس کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی بے توقیری ہو رہی ہے۔