اس سال کے شروع سے عرب دنیا میں شروع ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی لہر اور انتشار کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق صرف لیبیا میں اب تک تین لاکھ سے زائد افراد تقل مکانی کر چکے ہیں۔ لیبیا میں جنگ کی وجہ سے لاکھوں افراد نے سرحدیں عبور کر کے مصر اور تیونس کا رخ کیا ہے اور شام میں ہزاروں افراد نے اپنی جان بچانےکے لئے پڑوسی ملک ترکی میں پناہ حاصل کرلی ہے۔لیبیا میں صورتحال کی وجہ سے شاید ان میں سے اکثر کبھی بھی اپنے گھر واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔
اس سال فروری میں لیبیا میں مظاہروں اور پھر جنگ کے بعد سے لاکھوں افراد سرحد پار کرکے تیونس اور مصر میں داخل ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر غیر ملکی تارکین وطن ہیں جو لیبیا میں کام کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق چند ماہ پہلے تک لیبیا میں تقریباً دس لاکھ تارکین وطن کام کر رہے تھے۔واشنگٹن میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے سربراہونسنٹ کوشیٹل کہتے ہیں ان تارکین وطن کو اپنے آبائی ملکوں میں بھیجنا بڑا چیلنج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیبیا کی سرحد کے ساتھ تیونس میں چیلنج یہ ہے کہ پناہ گزین مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے آبائی ملکوں کو ان کی واپسی کے لئے انتظامات کرنے چاہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ان کی مدد کر سکتا ہے۔
لیبیا سے جو لوگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کے لئے زندگی کوئی آسان نہیں ۔
تیونس میں تو امدادی اور رضاکار ادارے کا م کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے UNHCRنے وہاں کیمپ قائم کیا ہے۔تیونس کے حکام پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ امدادی تنظیمیں کیمپوں اور خوراک کا بندوبست کر سکیں۔
http://www.youtube.com/embed/gYXXJjHrsgo
مگر مصر میں حالات مختلف ہیں۔مصر میں حکومت نے ابھی تک مہاجر کیمپ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ مصری حکومت کو خدشہ ہے کہ سرحد کے ساتھ کیمپ قائم کرنے سے شاید پناہ گزین لمبے عرصے تک وہاں موجود رہیں گے جس سے مسئلہ پیدا ہو گا۔سرحد تو ابھی کھلی ہے مگر سرحد عبور کرکے ٕصر میں داخل ہونے والوں کو اپنا بندوبست خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ وہ رشتہ داروں یا دوست احباب کے پاس ٹہرتے ہیں۔
شام میں مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کے باعث ہزاروں لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں۔ ترکی نے شام کے ساتھ اپنی سرحد کی نگرانی سخت کر دی ہے۔ شام کے شمال میں ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ایک گاؤں میں نقل مکانی کرنے والوں کے لئے خیمے لگائے گئے ہیں جہاں سے یہ لوگ سرحد عبور کرکے ترکی میں داخل ہوتے ہیں۔ انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک پناہ گزین کا کہنا تھا کہ بچوں کے لئے دودھ نہیں ہے۔ ہم نے کچھ خریدا تھا جو ختم ہوگیا ہے۔ شامی فوج عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ تمام لوگ نہیں بچ سکیں گے اس لئے کہ انہوں نے ان کی فصلیں جلا دی ہیں۔ اب تو اس میں فرقہ واریت کا رنگ بھی آگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں میں پناہ لینے والوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد اپنےہی ملکوں کے اندر بھی بے گھر ہوئی ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں ۔لوگ انسانی ہمدردی اور یک جہتی کے جذبے کے تحت ان افراد کی مدد کر رہے ہیں۔