یونان میں تین جزیروں کے مکینوں نے پناہ گزین کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کی آمد پر احتجاج کیا ہے۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تارکین وطن کا دباؤ کم کیا جائے۔
لسباس، کیاؤس اور ساموس کےجزائر پر زیادہ تر اسٹور بند رہے اور زیادہ تر سہولتیں روک دی گئیں۔ ان جگہوں پر پناہ گزین کیمپوں کے اندر ان کی گنجائش سے دس گنا زیادہ لوگ آ گئے ہیں۔
بین الاقوامی امدادی گروپوں نے یونان کے بعض جزائر میں کمیونی کی رہائشی صورت حال کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
احتجاجی مظاہرین پناہ گزین کیمپوں کی بندش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں تارکین وطن کو مساوی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔
علاقائی گورنروں نے بھی احتجاج کا اہتمام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق یونان کے تین جزیروں کے 10 ہزار افراد نے مظاہروں میں شرکت کی۔ لسباس کے مظاہرے میں شامل ایک شخص نے کہا کہ تارکین وطن کو یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ہم نسل پرست نہیں ہیں۔ بات محض یہ ہے کہ لسباس میں صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ لوگ آ رہے ہیں اور وہ یہاں سے جا نہیں رہے۔ سرحدوں کو کھول دیں، تاکہ وہ اٹلی، بلغاریہ اور جرمنی جا سکیں۔ اپنی سرحدوں کو بند کر دیں اس لیے کہ جزیرے میں اب مزید گنجائش نہیں ہے، چاہے وہ لسباس ہو، کیاؤس ہو یا ساموس ہو۔
مقامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج ایک کھلا اور واضح پیغام ہے کہ جزائر پر صورت حال وہاں کے لوگوں یا تارکین وطن کے لیے مزید قابل برداشت نہیں ہے۔
شمالی صوبے کے گورنر کوسٹاس موٹزورس کہتے ہیں کہ لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان کے لیے رہائش کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ہجوم کی شکل میں تارکین وطن کا پھنس جانا جاری نہیں رہ سکتا۔ ہماری انسانیت اسے تسلیم نہیں کر سکتی اور ان جزائر کے لوگوں کے طرز زندگی کی تباہی، جو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد کی وجہ سے درپیش ہے، ناقابل برداشت ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ یونان میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ تارکین وطن موجود ہیں، جن میں سے تقریباً چالیس ہزار کے قریب ان جزائر پر ہیں۔ لسباس کے جزیرے میں موریا کے کیمپ میں گنجائش سے بہت زیادہ لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہاں تین ہزار لوگوں کی گنجائش ہے جب کہ 19 ہزار افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر دیئے گئے ہیں۔
حادثات، بیماریوں یا تشدد کی کارروائیوں کی وجہ سے فرار ہو کر یونان پہنچنے والے ایک افغان پناہ گزین فرہاد کا کہنا ہے کہ کسی فیملی کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ رات کے وقت باتھ روم استعمال کر سکے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔
دوسری جانب تارکین وطن بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک احتجاج حال ہی میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب یمن سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن کو چھرا گھونپ کر ہلاک کر دیا گیا۔
یونان نے دوسرے یورپی ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بوجھ کو کم کرنے میں مدد فراہم کریں۔
ترک وطن اور سیاسی پناہ کی پالیسی سے متعلق یونان کے وزیر گیورگوس کوموٹساکوس کہتے ہیں ہیں نئی ضروریات کے پیش نظر یورپ کو فوری طور پر ایک مشترکہ پالیسی درکار ہے۔
فرانس نے یونان کو پرواز کے انتظام کی پیش کش کی ہے جن کے ذریعے سیاسی پناہ کے متمنی ایسے لوگوں کو ان کے ملکوں میں پہنچایا جا سکے، جن کی درخواستوں کو رد کر دیا گیا ہے۔
فرانس کے نائب وزیر داخلہ لورین نونز کا کہنا ہے کہ یورپی کوسٹ گارڈ کی مدد سے ہم فرانس اور یونان کی پروازوں کو منظم کر سکتے ہیں۔ یہ بات نہایت اہم نوعیت کی ہے۔ یہ ایک ضروری اقدام ہے۔
افریقہ، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اکثر مغربی یورپ اور یونان کے تین جزائر کے لیے ترکی کے راستے سفر کرتے ہیں۔
یورپ میں داخل ہونے کے لیے یہ سب سے قریبی راستہ بنتا ہے۔ اب جب کہ زیادہ سے زیادہ یورپی ممالک ان پر اپنی سرحدیں بند کر رہے ہیں، ترک وطن کے خواہش مند افراد یونان میں ہی قیام پذیر ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر غیر معمولی بوجھ پڑ رہا ہے۔