چین، پاکستان اور افغان طالبان کے سینئر عہدے دار جمعے سے اسلام آباد میں دو روزہ مذاکرات کریں گے جہاں مبصرین خطے میں بیجنگ کی ترجیحات کے بارے میں مزید جاننے کی توقع رکھتے ہیں۔
چینی وزیر خارجہ کن گینگ اور طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی جمعے کو اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کریں گے۔
طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی وفد کے ہمراہ آج ہی اسلام آباد پہنچیں گے۔بین الاقوامی برادری نے افغان خواتین اور دیگر طبقوں کو ہدف بنانے والی طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے انہیں الگ تھلگ کر رکھا ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کے علاوہ اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے چوتھے دور کی مشترکہ صدارت بھی کریں گے۔
چینی وزارت خارجہ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو 'اسٹریٹجک تعاون پرمبنی پائیدار شراکت دار اور اٹوٹ دوستی' سے تعبیر کیا ہے۔
واضح رہے کہ چین اپنے منصوبوں میں افغانستان کو بھی شامل کرنے کا خواہش مند ہے ۔مواصلات اور نقل و حمل کے روابط کے علاوہ بیجنگ افغانستان کے معدنیات اور تیل کے ذخائر میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
بیجنگ نے نہ صرف بین الاقوامی برادری کو طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ طالبان کی"ایک جامع حکومت کی تشکیل، اعتدال پسند طرز حکمرانی، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مستحکم لڑائی کی حوصلہ افزائی کی حمایت کرتا ہے۔"
افغانستان میں چین کی ترجیحات
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک جیمس ٹاؤن فاؤنڈیشن کے مصنف اور محقق ظفر اقبال یوسفزئی کہتےہیں کہ افغانستان میں بیجنگ کی ترجیحات سیکیورٹی کے خطرات کو کم کرنا اور اقتصادی مواقع کی تلاش ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کیا ہونا چاہیے اس پر اب کافی حد تک بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے۔ البتہ چین کا مفاد امریکہ اور دیگر ممالک کے مفادات سے ملتا جلتاہے۔ درحقیقت چین اور روس نے طالبان پر دباؤ ڈالنے میں عالمی برادری کا ساتھ دیا ہے۔
گزشتہ ماہ چین نے کہا تھا کہ افغانستان کے لیے اس کے ترقیاتی منصوبے سلامتی کی صورتِ حال میں بہتری پر منحصر ہوں گے۔
چینی وزارت خارجہ نے گزشتہ ماہ شائع ہونے والےایک 11 نکاتی پالیسی پیپر میں جس کا عنوان 'افغان مسئلے پر چین کا موقف 'تھا، کہا تھا کہ "سیکیورٹی ترقی کی بنیاد اور شرط ہے۔"
تیرہ اپریل کو چین کی جانب سے افغانستان کے لیے پالیسی کے اجرا کے ایک دن بعد، چین، روس اور افغانستان کے پانچ ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ازبکستان کے دارالحکومت سمرقند میں ایک اجلاس میں طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک جامع حکومت بنائیں اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں۔
SEE ALSO: افغانستان پر سمرقند میں اجلاس: شرکا نے امریکہ سے متعلق کیا کہا؟ایک زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا چین طالبان پر زیادہ شمولیت والی حکومت بنانے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اپنے افغان پالیسی پیپر میں، بیجنگ نے کہا تھا، "ہمیں امید ہے کہ افغان عبوری حکومت خواتین، بچوں اور تمام نسلی گروہوں سمیت افغان عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی۔"
ترقیاتی منصوبے
یوسفزئی نے کہا کہ چین افغانستان میں استحکام چاہتا ہے کیوں کہ یہ ملک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے لیے انتہائی اہم ہے اور اسے خدشہ ہے کہ افغانستان "دہشت گردوں کا گڑھ" بن سکتا ہے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایک عالمی زمینی اور سمندری بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ ہے جسے 2013 میں شروع کیا گیا تھا۔
چین اور افغانستان کے درمیان جولائی میں ہونے والی میٹنگ کے دوران، بیجنگ نے کہا تھا کہ وہ "چین پاکستان اقتصادی راہداری کی افغانستان تک توسیع کی حمایت کرے گا۔"
طالبان ایک ایسے وقت میں بیجنگ کے تئیں گرم جوشی رکھتے ہیں جب چین کو افغانستان کے لیے ممکنہ اقتصادی لائف لائن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے 'CGTN' کے ساتھ 14 اپریل کو انٹرویو میں، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان چین کے "شکر گزار" ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے، "چین نے اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا ہے اور سفارتی طور پر فعال ہے۔ بقول ان کے چین افغانستان میں اپنے اقتصادی منصوبوں اور معاہدوں کی بار بار تجدید پر قائم رہا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری کو بھی ’قابل تعریف‘ کہا تھا۔
(وائس آف امریکہ کی افغان سروس کےروشن نور زئی کی رپورٹ)