امریکی صدر بائیڈن ، نائب صدر ہیرس اور انتظامیہ کے سینئر حکام نے اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے پھیلاؤ سے منسلک خدشات کے تدارک اور اس کے محفوظ استعمال کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی چار امریکی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کی۔
صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ ان کی مصنوعات کو استعمال کرنا محفوظ ہے۔
صدر اور نائب صدر اس بارے میں واضح تھے کہ مصنوعی ذہانت میں پیش ر فت سے حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ اس شعبے سے افراد، معاشرے اور قومی سلامتی کو لاحق موجودہ اور ممکنہ خطرات کو کم کیا جائے۔ جن میں حفاظت، سیکیوریٹی، انسانی اور شہری حقوق، رازداری، ملازمتوں اور جمہوری اقدار کے لیے ممکنہ خطرات شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ کے اہل کاروں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپنیوں کی قیادت پر زور دیا کہ وہ مصنوعی ذہانت کی ذمہ دارانہ اختراعات تیار کرنے اور ان کے حفاظتی انتظامات کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔اور اس سلسلے میں بائیڈن ہیرس ایڈمنسٹریشن کے بلیو پرنٹ کے مطابق کارروائی کریں، تاکہ امریکی عوام آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی اختراعات سے فیض یاب ہو سکیں۔
اجلاس میں اس پہلو پر بھی زور دیا گیا کہ اے آئی کے نظام زیادہ شفاف اور محفوظ ہوں اور ہیکرز اور بدنیتی پر مبنی حملوں سے محفوظ ہوں۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والا یہ اجلاس بائیڈن انتظامیہ کی جانب سےمصنوعی ذہاتت کے ذمہ دارانہ فروغ، جدت طرازی اور خطرات پر قابو پانے کی کوششوں کے اقدامات کی ایک کڑی ہے۔
عتمادحال ہی میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجز کے بانیوں میں شامل سائنس دان جیفری ہنٹن نے بھی خبردار کیا ہے کہ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کو تیزی سے متعارف کرانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ گوگل کے آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے لیے فاؤنڈیشن کے بانی اور اس شعبے میں گاڈ فادر کی حیثیت رکھنے والے سائنس دان سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے گوگل سے اپنی ملازمت سے مستعفی ہوتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیش رفت سے "معاشرے اور انسانیت کے لیے گہرے خطرات" پیدا ہوں گے۔
( اس خبر کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)