تحریک انصاف کے راہنما عمران خان کی سابق اہلیہ، صحافی اور متنازعہ کتاب ’’ریحام خان‘‘ کی مصنفہ ریحام خان نے کہا ہے اگر عمران خان کی حکومت معیشت، نوجوانوں کے لیے روزگار اور سماجی اور انسانی آزادیوں میں کارکردگی دکھاتی ہے تو وہ بحیثیت سیاسی تجزیہ کار ذاتی معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران حکومت کی تعریف کریں گی۔
تاہم انہوں کا کہنا تھا کہ تبدیلی کی دعووں اور حقیقی تبدیلی لانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان قومی ہیرو بہرحال ہیں اور اگر ان کا موازنہ کوئی ٹرمپ کے ساتھ کرتا ہے تو انہیں افسوس ہوتا ہے۔
ریحام خان کے بقول مریم نواز کا سیاسی مستقبل ہے اور یہ کہ انہیں اپنی کتاب پر جو آئن لائن دستیاب ہے، بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے، ایک ہزار سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں ریحام خان نے کہا کہ تبدیلی آ گئی ہے مگر اس کو اصل تبدیلی میں ڈھلنا ابھی باقی ہے۔
’’ تبدیلی تو آ گئی۔ لیکن یہ تبدیلی اچھی بھی ہو سکتی ہے، بری بھی اور عارضی بھی‘‘ تبدیلی تو یہ بھی آ گئی ہے کہ ایک ایم پی اے ایک عام شہری پر تھپڑوں کی بارش کر رہا ہے۔۔ ‘‘
ریحام خان کے مطابق عمران خان کی جیت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار واضح تھا۔
’’ اگر مریخ سے فرشتے ووٹ دینے نہ آتے تو بھلا مولانا فضل الرحمن کیسے ہارتے، بلوچستان سے پی ٹی آئی کیسے سیٹ جیت سکتی‘‘۔ ان کے بقول کہ یہ کہنا درست نہیں کہ خیبرپختونخوا کے عوام سیاسی طور پر زیادہ شعور کے حامل ہیں۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ کے پی اور بلوچستان میں بالخصوص اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتی ہے۔ البتہ کے پی میں لوگ عمران خان کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں۔ کارکردگی وہاں اچھی نہ تھی۔
ریحام خان نے حکومت سازی میں تحریک انصاف کی ابتدائی ٹیم کی تشکیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے لیے اسد قیصر اور قاسم سوری کے انتخاب اور عامر لیاقت حسین کو کراچی سے منتخب کرانے کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
ریحام خان سے جب پوچھا گیا کہ اگر وہ منتخب رکن قوم اسمبلی ہوتیں تو کیا عمران خان کے مخالف نظر آنے والی رکن پنجاب اسمبلی جگنو محسن کی طرح پہلا اعتماد کا ووٹ بظاہر کامیاب ہونے والے امیدوار (عمران خان ) کو دیتیں یا شہباز شریف کو؟ اس پر ریحام خان نے کہا۔
’’ میرے شوہر پاکستان کرکٹ بورڈ میں نوکری نہیں کرتے کہ ان کی جاب بچانے کے لیے عمران خان کو ووٹ دیتی‘‘۔
تاہم ان کے بقول وہ اپنے نظریے پر ووٹ دیتیں اور ان کے نظریے پر آج کل شہباز شریف بھی پورے نہیں اترتے کہ لگتا ہے وہ بھی بہت ’’کمپرومائزنگ‘‘ سیاست کر رہے ہیں۔
ریحام خان نے کہا کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں مریم نواز کا اہم کردار دیکھتی ہیں اور ان کو ہیرو بنانے والوں میں کوئی اور نہیں عمران خان اور ان کو سڑکوں پر لانے والے ہاتھ ہیں۔
اپنی کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آن لائن کتاب پر زبردست پذیرائی مل رہی ہے بالخصوص امریکہ سے اور اب یہ کتاب ایمزان پر کتابی صورت میں بھی دستیاب ہے۔
انہوں نے کہ دنیا کے پانچ بہترین پبلشرز کتاب چھاپنے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر بوجوہ ان کو پہلے آن لائن ایڈیشن لانا پڑا۔ انہوں نے کتاب کی نواز لیگ بالخصوص شہباز شریف، حنیف عباسی، نجم سیٹھی، سابق سفیر حسین حقانی یا عطاءالحق قاسمی کی کسی طرح کی معاونت کے الزام کو مسترد کیا۔
انہوں نے اس اعتراض کو بھی مسترد کیا کہ وہ کتاب میں میاں بیوی کے درمیان کے معاملات کو بازار میں لے آئی ہیں۔ ان کا کہتا تھا کہ وہ اپنے اور عمران کے تعلق سے متعلق کچھ نہیں کہہ رہیں بلکہ عمران خان کے دوسرے لوگوں سے تعلقات کو سامنے لائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر تحریک انصاف میں کسی خاتون کو دولت یا صنفی فیورز کی وجہ سے جگہ ملتی ہے تو اس کو سامنے لانا نہ تو مغرب کی روایات کے برعکس ہے اور نہ مشرق کے کچھ خلاف۔
ریحام خان نے کہا کہ ان کے اور عمران خان کے درمیان ذاتی اختلاف نہیں تھے اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان کے سیاسی عزائم تھے اور اس بنیاد پر عمران خان ان سے نالاں تھے۔
ریحام خان کے مطابق اگر ان کو سیاست کرنا ہوتی تو یہ آپشن انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی موجود تھا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے راہنماؤں نے بہت پہلے ان کو پیشکش کی تھی۔
ریحام خان نے سینیر صحافی عارف نظامی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پتا نہیں ان کوبیڈ روم کی خبریں کون دے رہا تھا۔ حالانکہ ان سے کبھی بات ہوئی نہ کبھی ٹیکسٹ میسیجز کا تبادلہ۔ ان کے بقول ’’ ان سے اللہ بچائے اور اللہ ان پر رحم کرے‘‘
ریحام خان نے کہا کہ پاکستان اب ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ اور وہ جلد پاکستان ہوں گی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ آیا صحافت جوائن کریں گی یا پھر سماجی کارکن کے طور پر کام جاری رکھیں گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافت کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر قطعا افسوس نہیں کہ وہ خاتون اول کے طور پر عمران خان کے ساتھ نہیں کھڑی ہوں گی۔
انٹرویو کے دوران ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت دکھ بہرحال ہوتا ہے جب عمران خان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی عمران خان خود موقع دیتے ہیں جب وہ فاروق بندیال جیسے بدنام زمانہ شخص کو پارٹی میں شامل کرتے ہیں۔