'چل میرا پت ٹو' سمیت بھارتی پنجابی فلموں کی پاکستان میں ریلیز: کیا فن کاروں کو فائدہ ہوگا؟

فٖائل فوٹو

پاکستان اور بھارت کے درمیان تین سال قبل فلموں کے تبادلے کا جو سلسلہ رکا تھا وہ اب تک دوبارہ شروع نہیں ہوسکا البتہ پاکستان کے سنیما گھروں میں بھارت میں بننے والی پنجابی فلموں کی نمائش کا سلسلہ ضرور شروع ہوگیا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں کامیاب بھارتی پنجابی فلم 'چل میرا پُت ٹو' ریلیز ہوئی جس میں متعدد پاکستانی فنکاروں نے بھی اداکاری کی اور جن کی فن کاری کو دنیا بھر میں پنجابی بولنے اور سمجھنے والوں نے پسند کیا۔

فلم میں جہاں معروف پاکستانی اداکار افتخار ٹھاکر ہیں، وہیں روبی انعم، ظفری خان اور اکرم اداس نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ دیکھنے والوں نے تو ناصر چنیوٹی اور آغا ماجد کی بھی اداکاری کو بے حد پسند کیا۔

ایک طرف اس فلم کی وجہ سے سنیما گھروں کی خاص طور پر پنجاب کے سنیما گھروں کی رونق واپس آئی تو دوسری جانب پاکستانی فلم اسٹار شان شاہد نے اسے مقامی فلم انڈسٹری کے لیے ایک منفی قدم قرار دیا۔

لاتعداد اردو اور پنجابی فلموں میں کام کرنے والے سپر اسٹار شان سمجھتے ہیں کہ بھارتی پنجابی فلم بھی بھارت ہی کی فلم ہے۔ اگر بھارت نے پاکستانی اداکاروں، گلوکاروں اور فلموں پر پابندی لگائی ہوئی ہے تو پاکستانی میں بھی بھارتی پنجابی فلموں کی نمائش کی اجازت کیوں دی گئی۔

سوشل میڈیا کے ذریعے جاری ہونے والے مؤقف میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اپنی ثقافتی سرحد کی حفاظت کرے۔ کسی بھی قسم کی تجارت میں برابری اور احترام کا رشتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب تک بھارت پاکستانی فنکاروں پر سے پابندی نہیں ہٹائے گا۔ کسی بھی بھارتی فلم کی پاکستان میں نمائش پر پابندی ہونی چاہیے۔

چل میرا پُت ٹو کے بعد بھی چند بھارتی فلمیں پاکستان آئیں

'چل میرا پُت ٹو' کی کامیابی کے بعد بھارت کے اداکار دلجیت دوسانجھ کی 'حونصلہ رکھ' سمیت متعدد فلمیں سنیما کی زینت بنیں البتہ جو کامیابی پاکستانی اداکاروں سے کی فن کاری سے بن فلم کو ملی، وہ دوسری فلم کے حصے میں نہیں آئی۔

امکان تو یہی ہے کہ رواں سال گلوکار و اداکار گپی گریوال کی فلم 'پھٹے دندے چک پنجابی' بھی پاکستان میں سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی جس میں معروف پاکستانی اداکار احمد علی بٹ اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

'پاکستان میں سنیما کی ترقی میں بھارتی فلموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے'

پاکستان کی بڑی فلم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے ایک آئی ایم جی سی (ڈسٹری بیوشن کلب) کے چیئرمین شیخ امجد رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھارتی پنجابی فلموں کی نمائش وقت کی ضرورت ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سنیما پنجاب میں ہیں بلکہ اس لیے کیوں کہ ان فلموں کی نمائش سے پاکستان میں سنیما انڈسٹری کو فروغ مل سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ گزشتہ دس برس میں پاکستان میں سنیما کی ترقی میں بھارتی فلموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ بالی وڈ فلموں کی بندش کے بعد کئی سنیما بھی بند ہونا شروع ہوگئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سال میں اتنی فلمیں نہیں بنتی کہ پورا سال سنیما کی مانگ پوری ہو سکے اس لیے جب بھارتی فلمیں لگتی تھیں تو لوگوں کو سنیما آ کر فلم دیکھنے کا ایک آپشن ملتا تھا۔ بالی وڈ فلموں کی بندش کے بعد ہالی وڈ اور پاکستانی فلمیں مل کر بھی اس مانگ کو پورا نہیں کر پا رہی ہیں اور اسی وجہ سے ملک کے کئی سنیما گھر بند ہو رہے ہیں۔

انہوں پاکستان کے سنیما کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی پنجابی فلموں کی نمائش سے جہاں سنیما کی مانگ پوری ہو سکتی ہے وہیں پاکستانی آرٹسٹوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے کیوں کہ پاکستان میں بھارت کی وہی پنجابی فلم زیادہ چلے گی جس میں پاکستانی اداکار ہوں گے۔

ان کے بقول چل میرا پت ٹو میں افتخار ٹھاکر، روبی انعم اور امانت چن جیسے متعدد پاکستانی اداکار شامل ہیں جن کی وجہ سے اس نے اب تک پانچ ہفتوں میں سوا چار کروڑ روپے کا بزنس کیا ہے۔ باقی بھارتی پنجابی فلمیں سنیما میں ضرور لگی ہیں البتہ اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جتنی پاکستانی اداکاروں کو لے کربننے والی بھارتی پنجابی فلم کو کامیابی ملی ہے۔

بھارتی پنجابی فلموں کو اجازت مل رہی ہے تو باقی نے کیا بگاڑا ہے؟

نبیل قریشی کا شمار پاکستان کے کامیاب ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی فلمیں 'نامعلوم افراد'، 'ایکٹر ان لا'، 'لوڈ ویڈنگ' اور 'کھیل کھیل میں' کی وجہ سے لوگوں نے سنیما گھروں کا رخ کرنا شروع کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی سنیما میں بھارتی پنجابی فلمیں لگ سکتی ہیں تو باقی زبانوں کی فلموں کا کیا قصور ہے؟

Your browser doesn’t support HTML5

'سوشل میڈیا پر ہر ایک کو آزادی ہے جس کو مرضی گالی دے دو'

نبیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ دو برس کے دوران سنیما انڈسٹری نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ سنیما کو کانٹینٹ کی ضرورت ہے جس کی مانگ بھارتی پنجابی فلمیں ضرور پورا کرسکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارتی پنجابی فلمیں پاکستانی سنیما گھروں میں لگ سکتی ہیں تو پھر بھارت ہی میں بننے والی ہندی، تامل فلم یا کوئی اور زبان کی فلم کیوں نہیں آسکتی؟

بقول نبیل قریشی بھارتی پنجابی فلموں پر کینیڈا یا برطانیہ کا ٹھپہ لگا کر انہیں انٹرنیشنل فلم نہیں کہا جاسکتا۔ ان میں کام کرنے والے سب بھارتی ہی ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی پنجابی فلموں کو کینیڈین یا برٹش فلم کہنا بس ایک بہانہ ہے۔ یہ سیدھی سادی بھارتی فلمیں ہیں جس میں کام کرنے والے تمام ہی لوگ بھارتی ہوتے ہیں۔ صرف پروڈکشن ہاؤس اور کمپنی باہر رجسٹرکرنے سے یہ فلم انٹرنیشنل نہیں بن جاتی۔ آئی ایم ڈی بی پر بھی فلم کا اوریجن انڈین ہی لکھا ہوتا ہے۔

نبیل قریشی سمجھتے ہیں کہ بھارتی پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کا ہونا خوش آئند ہے البتہ ایسا صرف ایک دو فلموں میں ہوا ہے۔ اگر انڈین فلموں پر پابندی ہے تو پھر ہر قسم کی انڈین فلم پر ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری فلمیں بھارت میں کبھی چلتی نہیں لیکن ہم ان کی فلمیں چلاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی پنجابی فلموں کی آمد ایک طرح سے سافٹ اوپننگ ہو سب کھولنے کی طرف، لیکن اگر سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو ایسا مشکل لگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھارتی فلموں کے بغیر اتنا عرصہ گزر ہی گیا ہے تو تھوڑا عرصہ اور بھی صبرکر کے دیکھ لیں۔ ہر فیلڈ میں پاکستان کو نیچا دکھانے والے بھارت کو اب انہی کی زبان میں جواب دینے کا وقت ہے۔