برما، فرقہ ورانہ فسادات کی لپیٹ میں

ماہرین کہتے ہیں کہ اوکن میں ہونے والے مذہبی فسادات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان ہونے والے معمولی تنازعات بھی فسادات کی چنگاری بھڑکا سکتے ہیں۔
برما فرقہ ورانہ تشدد کی لپیٹ میں ہے اور اس کی حالیہ مثال رنگون کے شمال میں سینکڑوں دیہاتوں میں پھیلی دکھائی دی، جہاں فتنہ و فساد میں دو افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد گھر، دکانیں اور مساجد تباہ کر دئے گئے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اوکن کے علاقے میں فرقہ ورانہ فسادات اُس وقت بھڑک اٹھے جب سائیکل پر سوار ایک مسلمان بچی بدھ مت کے ایک نو آموز مذہبی پیشوا سے ٹکرا گئی۔ ٹکر کے نتیجے میں مذہبی پیشوا کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کر گرا اور ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد ارد گرد کے گاؤں میں بسنے والے لوگوں نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔


ماہرین کہتے ہیں کہ اوکن میں ہونے والے مذہبی فسادات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان ہونے والے معمولی تنازعات بھی فسادات کی چنگاری بھڑکا سکتے ہیں۔

منگل کے روز تباہ ہونے والی املاک میں ایک اسلامی سکول بھی شامل ہے۔ لیچ مین اس سکول میں ٹیچر تھے اور جس وقت مقامی گاؤں کے لوگ اپنی کھیتی باڑی کے اوزار لے کر سکول میں داخل ہوکر اسے تباہ کرنا شروع کیا، اس وقت لیچ مین ایک قریبی جگہ پر چھپ گئے تھے۔ اُن کے الفاط، ’ہم نے سُنا کہ میختیلا میں کیا ہوا۔ لہذا، ہم لڑنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہمارے مذہبی راہنماؤں نے ہمیں تنبیہہ کی ہے کہ ہم اُن لوگوں سے نہ لڑیں جو ہماری املاک کو تباہ کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بس اپنی زندگیاں بچائیں۔‘

گذشتہ ماہ میختیلا میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے 10،000 سے زائد مسلمانوں کو اپنے گھربار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔ انہیں یہ عارضی کیمپ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا ان مسلمانوں کی حفاظت کے پیش ِنظر کیا گیا ہے۔


میختیلا میں ابھی تک فرقہ ورانہ فسادات کے نشانات باقی ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میختیلا میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں میں ایک اسلامی سکول کے 40 بچے بھی شامل تھے۔

نیویارک میں ’ہیومن رائیٹس واچ‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے کیے جانے والے فسادات سے فرقہ ورانہ تشدد کو ہوا ملی ہے۔

فل روبرٹسن، ہیومن رائٹس واچ میں ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، ’ایسا لگتا ہے کہ یہ آج کی حقیقت یہی ہے کہ برما میں فرقہ ورانہ تشدد ہورہاہے، پولیس وہیں ہوتی ہے مگر اسے روکنے کے لیے کوئی کوشش یا اقدام نہیں اٹھاتی۔ بالآخر، کچھ عرصے بعد فوج کو آنا پڑتا ہے اور پھر کسی کا بھی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی مسئلہ ہم نے اراکن کی ریاست میں دیکھا۔ اب یہی مسئلہ وسطی برما میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔‘