پاکستان کے ممتاز ہدایت کار اداکار ، صداکار اور ٹی وی میزبان ضیا محی الدین پیر کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 91 برس تھی۔
تھیٹر , فنِ اداکاری اور صداکاری میں اپنی علیحدہ شناخت بنانے والے ضیا محی الدین 20 جون 1931 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے ابتدائی زندگی قصور اور لاہور میں گزاری۔ انہوں نے 1949 میں معروف درس گاہ گورنمںٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔
اردو ادب کی معروف ویب سائٹ ’ریختہ‘ کے مطابق ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور انہیں پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
اس کے علاوہ ان کے والد ڈراما نگار ار نغمہ نگار کے طور پر اس دور کے بعض تھیٹر گروپس سے بھی وابستہ رہے۔ ضیا محی الدین کا تعلیمی کرئیر ان کی والد کی تھیٹر سے وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
ضیا محی الدین تعلیم کے لیے پہلے آسٹریلیا گئے اور بعد ازاں اداکاری کی تربیت کے لیے لندن کا رُخ کیا۔انہوں نے 1953 سے 1956 تک لندن کے 'رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ' سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے لندن ہی میں تھیٹر کی اداکاری کا باقاعدہ آغاز کردیا۔
اسی دور میں انہوں نے ’جولیئس سیزر‘، ’لونگ ڈیز جرنی ان ٹو نائٹ‘ جیسے ڈراموں میں اہم کردار ادا کیے۔فلم، ٹی وی اور ادکاروں سے متعلق انٹرنینشل ڈیٹا بیس آئی ایم بی ڈی کے مطابق انہیں 1960 میں ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ نامی تھیٹر ڈرامے میں ’ڈاکٹر عزیز‘ کے کردار سے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
آئی ایم بی ڈی کے مطابق ضیا محی الدین پاکستان سے اپنے فلمی کرئیر کا آغاز کرچکے تھے۔ اس کے بعد انہیں 1962 میں فلم 'لارنس آف عریبیہ' میں کام کرنے کا موقع ملا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی دیگر فلموں میں بھی کام کیا۔
ضیا محی الدین 1960 کی دہائی میں پاکستان آئے اور پی آئی اے آرٹس اینڈ ڈانس اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔
منفرد شوز کا آغاز
ضیا محی الدین 1969 سے 1973 تک انہوں نے پی ٹی وی پر انٹرویوز اور نمایاں شخصیات سے گفتگو پر مبنی پروگرام ’ضیا محی الدین شو‘ شروع کیا جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
پاکستان میں 1977 مارشل لگنے کے بعد ضیا محی الدین برطانیہ منتقل ہوگئے۔ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے کئی فلموں میں کام کیا۔
نوے کی دہائی میں وہ واپس پاکستان آئے اور انہوں نے پی ٹی وی کے لیے دوبارہ کام کا آغاز کیا۔ان پروگرامز میں انہوں نے فنِ موسیقی پر دل چسپ گفتگو اور متنخب ادبی شاہ پاروں کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔انہوں نے پی ٹی وی پر سوال و جواب پر مبنی انعامی شو ’جو جانے وہ جیتے‘ کی میزبانی بھی کی۔
پڑھنت کا مخصوص انداز
تھیٹر کی باقاعدہ تربیت کی وجہ سے ضیا محی الدین آواز کے زیر و بم اور کسی تحریر یا مکالمے کے مطابق آواز کو ڈھالنے کا فن جانتے تھے۔
وہ ادارکاری کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی ادب کے خوش ذوق قاری تھے۔ ضیا محی الدین نے ادب سے انتخاب کرکے انہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہیں ’ریڈنگ‘ یا پڑھنت سے نہ صرف بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے سامعین کو کلاسیکی ادب کے کئی شاہ کار فن پاروں سے بھی اپنے سامعین کو متعارف کرایا۔
ان کی آواز میں خطوطِ غالب، رتن ناتھ سرشار، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، شان الحق حقی، چوہدری محمد علی ردولوی، اسد محمد خاں کے نثر پاروں کو سامعین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔
انہوں ںے شاعری میں غالب، میر، اقبال، فیض، ن م راشد، ناصر کاظمی جیسے معروف شعرا کے کلام بھی پڑھا۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی کے فن پاروں کی پڑھنت سے بھی سننے والوں کو محظوظ کیا۔
ضیا محی الدین پاکستان میں چوٹی کے صدا کار تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن اور نجی پروڈکشن میں بننے والی کئی دستاویزی فلموں اور اشتہاروں میں بھی پسِ پردہ آواز دی۔
ضیا محی الدین نے 2004 میں کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) کی بنیاد رکھی اور آخری وقت تک اس اکیڈمی کے سربراہ رہے۔
ضیا محی الدین نے اپنی یادداشتوں پر مبنی دو کتابیں ’کیرٹ از کیرٹ‘ اور ’دی گوڈ آف مائی آئیڈولٹری‘ تصنیف کیں۔
حکومتِ پاکستان نے فن کے لیے خدماتِ کے اعتراف میں ضیا محی الدین کو 2003 میں ستارۂ امتیاز اور 2012 میں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا۔
ضیا محی الدین نے تین شادیاں کی جن سے ان کی چار اولادیں ہیں۔ معروف کتھک رقاص ناہید صدیقی اور سرور زمانی بیگم سے شادی علیحدگی پر ختم ہوئی۔1990 کی دہائی میں انہوں نے عذرا محی الدین سے شادی کی۔