سندھ کے سرکاری اسکولوں کی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہٴسندھ کے27 اضلاع میں قائم 6721 سرکاری اسکولوں میں سے 4540 اسکول غیرفعال ہیں، جبکہ 2181 ’گھوسٹ اسکول‘ ہیں
سندھ ہائی کورٹ اور سیشن عدالتوں کے ججوں پر مشتمل صوبے کے سرکاری اسکولوں کے بارے میں جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہٴسندھ کے 27 اضلاع میں قائم 6721 سرکاری اسکولوں میں سے 4540 اسکول غیر فعال ہیں، جبکہ 2181 اسکول محض کاغذوں پر موجود اسکول موجود ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے سیشن ججز کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام کو دہشتگردوں اور خودکش حملوں سے نہیں تعلیمی نظام میں رائج بدعنوانی، جاگیرداروں اور وڈیروں سےخطرہ ہے۔
سندھ کے غیر فعال سرکاری اسکول
رپورٹ کے مطابق، سندھ بھر میں48227 سرکاری اسکول قائم ہیں، جس میں کراچی کے پانچ اضلاع کے 4540 سرکاری اسکول غیر فعال ہیں۔ سندھ کے 524 سرکاری اسکولوں میں غیر قانونی تجاوزات ہیں، جبکہ 17 اسکولوں کی تعمیر التوا کا شکار ہے۔
سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی
جائزہ رپورٹ میں 2181 گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ مختلف اسکولوں کو مقامی زمینداروں اور جاگیرداروں کی جانب سے مویشی پالنے اور ’گیسٹ ہاوٴس‘ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
صدر زرداری کے اپنے ضلع میں تعلیم کا حال
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے اپنے ہی ضلع بینظیرآباد میں 112 اسکولوں میں تاحال تعلیم کا سلسلہ شروع نہیں کیا جا سکا، جہاں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ صدر مملکت نے ملالہ یوسف زئی کی اپیل پر دنیا بھر کی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے پروگرام کے لیے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، جبکہ ان کے اپنے ہی صوبے میں تعلیم کا نظام ابتر دکھائی دیتا ہے، جہاں بڑی تعداد میں ’گھوسٹ‘ اور غیر فعال اسکول موجود ہیں
غیر فعال اسکولوں کو بجٹ اور فنڈز کی فراہمی
رپورٹ کے مطابق، غیر فعال اسکولوں سمیت، تمام تعلیمی اداروں کے لیے سالانہ بجٹ مختص اور جاری ہوتا ہے، اور یہ بجٹ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس پر ملک بھر میں تعلیمی نظام کی جانچ پڑتال کیلئے 11 فروری 2012 ءکو بنائی گئی ججز پر مشتمل کمیٹیوں کو ملک بھر میں تعلیم کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ صادر ہونے والے حکم میں کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ و سیشن ججز بذات خود جا کر اسکولوں کا جائزہ لیں اور عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔ رپورٹ پیش ہونے کے بعد، ہائی کورٹ کی تجزیاتی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں سندھ میں تعلیم کے نظام کی خستہ حالی سامنے آئی ہے۔
گذشتہ دور حکومت کی سندھ کی مضبوط سیاسی جماعت نے اسمبلیوں میں مفت اور لازمی تعلیم کے کئی آرڈیننس اور قراردادیں بھی منظور کرائیں، مگر عملی طور پر سندھ میں تعلیم کے لیے کوئی قابلِ قدر اقدامات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔
سندھ کے غیر فعال سرکاری اسکول
رپورٹ کے مطابق، سندھ بھر میں48227 سرکاری اسکول قائم ہیں، جس میں کراچی کے پانچ اضلاع کے 4540 سرکاری اسکول غیر فعال ہیں۔ سندھ کے 524 سرکاری اسکولوں میں غیر قانونی تجاوزات ہیں، جبکہ 17 اسکولوں کی تعمیر التوا کا شکار ہے۔
سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی
جائزہ رپورٹ میں 2181 گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ مختلف اسکولوں کو مقامی زمینداروں اور جاگیرداروں کی جانب سے مویشی پالنے اور ’گیسٹ ہاوٴس‘ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
صدر زرداری کے اپنے ضلع میں تعلیم کا حال
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے اپنے ہی ضلع بینظیرآباد میں 112 اسکولوں میں تاحال تعلیم کا سلسلہ شروع نہیں کیا جا سکا، جہاں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ صدر مملکت نے ملالہ یوسف زئی کی اپیل پر دنیا بھر کی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے پروگرام کے لیے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، جبکہ ان کے اپنے ہی صوبے میں تعلیم کا نظام ابتر دکھائی دیتا ہے، جہاں بڑی تعداد میں ’گھوسٹ‘ اور غیر فعال اسکول موجود ہیں
غیر فعال اسکولوں کو بجٹ اور فنڈز کی فراہمی
رپورٹ کے مطابق، غیر فعال اسکولوں سمیت، تمام تعلیمی اداروں کے لیے سالانہ بجٹ مختص اور جاری ہوتا ہے، اور یہ بجٹ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس پر ملک بھر میں تعلیمی نظام کی جانچ پڑتال کیلئے 11 فروری 2012 ءکو بنائی گئی ججز پر مشتمل کمیٹیوں کو ملک بھر میں تعلیم کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ صادر ہونے والے حکم میں کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ و سیشن ججز بذات خود جا کر اسکولوں کا جائزہ لیں اور عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔ رپورٹ پیش ہونے کے بعد، ہائی کورٹ کی تجزیاتی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں سندھ میں تعلیم کے نظام کی خستہ حالی سامنے آئی ہے۔
گذشتہ دور حکومت کی سندھ کی مضبوط سیاسی جماعت نے اسمبلیوں میں مفت اور لازمی تعلیم کے کئی آرڈیننس اور قراردادیں بھی منظور کرائیں، مگر عملی طور پر سندھ میں تعلیم کے لیے کوئی قابلِ قدر اقدامات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔