ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا ہے تاکہ پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا جاسکے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا پڑسکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چین کی جانب سے پاکستان کو قرض کی فراہمی کی خبر اسے پاکستانی وزارتِ خزانہ کے دو ذرائع سے ملی ہے جن رپورٹ میں شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
یہ تازہ قرضہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اپنے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کی کوشش ہے جو گزشتہ ہفتے کم ہو کر نو ارب 66 کروڑ تک ہو گئے تھے۔ مئی میں یہ ذخائر 16 ارب 40 کروڑ ڈالر تھے۔
وزارتِ خزانہ سے منسلک دو افراد نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ پاکستان کو ملنے والا ایک ارب ڈالر کا یہ قرضہ چین سے ایک سے دو ارب ڈالر قرضے کے حصول کے لیے ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ "یہ (رقم) اب ہمارے پاس ہے" اور "یہ معاملہ مکمل ہو گیا ہے۔"
تاہم وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے 'رائٹرز' کی جانب سے اس خبر پر ردِ عمل دینے کی درخواست کے باوجود اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
اس تازہ ترین قرضے کے بعد جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کو ملنے والا قرضہ پانچ ارب ڈالر سے بڑھنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں وزارتِ خزانہ کی ایک دستاویز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ چین نے 30 جون کو ختم ہونے والی مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران پاکستان کو ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کا قرض فراہم کیا تھا جب کہ اس دوران پاکستان نے تجارتی بینکوں سے دو ارب 90 کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جو زیادہ تر چین کے بینکوں نے فراہم کیا۔
بیجنگ کی طرف سے اسلام آباد کو دیا جانے والا ایک ارب ڈالر کا قرض پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کی کوششوں کا مظہر ہے۔ چین، پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید گہرے ہورہے ہیں۔
واضح رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری بیجنگ کے 'بیلٹ اور روڈ' کے عنوان سے جاری وسیع منصوبے کا اہم حصہ ہے۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف چین کی معاونت کافی نہیں اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو درپیش دباؤ کے پیش نظر 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت کو ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے لیے 'آئی ایم ایف' سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایمنسٹی اسکیم میں ایک ماہ کی توسیع
دریں اثنا ایک سرکاری بیان کے مطابق پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 30 جون کو ختم ہونے والی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں مزید ایک ماہ کی توسیع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق عوام اور کاروباری اور دیگر حلقوں کی طرف سے حکومت کو اس اسکیم کی مدت میں توسیع کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
گزشتہ حکومت نے رواں سال اپریل میں یہ اسکیم جاری کی تھی جس کے تحت وہ افراد جو ملک کے اندر اور بیرون ملک غیر قانونی اثاثہ یا سرمایہ رکھتے ہیں وہ رواں سال 30 جون سے پہلے ایک مخصوص شرح ٹیکس ادا کر کے اپنے ان اثاثوں کو ظاہر کر سکتے تھے۔
اس وقت بتایا گیا تھا کہ اس اسکیم کا مقصد زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل کرنا ہے تاکہ ملک کے محصولات میں اضافہ کیا جائے۔
یہ اسکیم ایک ایسے وقت سامنے لائی گئی تھی جب پاکستان کی کم ہوتی ہوئی برآمدات اور بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی واقع ہو رہی تھی۔
تاہم اب تک سرکاری طور پر اس اسکیم کے تحت حاصل ہونے والے محصولات کی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔