جرمنی کے ایک موقر جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسی وہائٹ ہاؤس سمیت امریکہ کے کئی سرکاری دفاتر اور کاروباری اہداف کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔
جرمن جریدے 'اسپیگل' نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کے نمائندوں نے بعض ایسی سرکاری دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ جرمن انٹیلی جنس ایجنسی 'بی این ڈی' 1998ء سے 2006ء تک امریکی اہداف کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جن اہداف کی جاسوسی کی جاتی رہی ہے ان میں وہائٹ ہاؤس اور محکمۂ خزانہ و خارجہ سمیت دیگر سرکاری اداوں کے زیرِ استعمال فون اور فیکس نمبر اور ای میل ایڈریس شامل تھے۔
جاسوسی کا نشانہ بننے والے دیگر اہداف میں فوجی تنصیبات، خلائی ادارے 'ناسا' اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کے دفاتر بھی شامل تھے۔
'اسپیگل' نے دعویٰ کیا ہے کہ جرمن ایجنسی نے امریکی اداروں کے علاوہ امریکہ میں موجود درجنوں غیر ملکی سفارت خانوں اور 'ائی ایم ایف' جیسے بین الاقوامی اداروں کی بھی جاسوسی کی۔
جرمن انٹیلی جنس ادارے نے 'اسپیگل' کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے اور تاحال امریکی حکومت کی جانب سے بھی اس رپورٹ پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
جرمنی اور امریکہ قریبی اتحادی ہیں۔ لیکن جب 2013ء میں امریکی خفیہ ادارے 'این ایس اے' کے ایک اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکی ایجنسی جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل سمیت درجنوں غیر ملکی رہنماؤں کی جاسوسی کر رہی ہے، تو جرمنی نے اس پر شدید برہمی ظاہر کی تھی۔
رپورٹ کے بعد جرمن چانسلر مرخیل نے بارہا کہا تھا کہ جرمنی اپنے دفاع کے معاملے میں امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور ایسے قریبی دوستوں کے درمیان جاسوسی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم بعد ازاں جرمن حکومت کو ان اطلاعات کے سامنے آنے پر خفت اٹھانا پڑی تھی کہ 'این ایس اے' کو یورپی رہنماؤں کی جاسوسی میں جرمنی کے خفیہ ادارے 'بی این ڈی' کی مدد حاصل تھی۔
اس اسکینڈل کے سامنے آنے کےبعد گزشتہ سال جون میں مرخیل حکومت نے نئے قوانین منظور کیے تھے جن کے تحت 'بی این ڈی' کی سرگرمیوں کی نگرانی بڑھادی گئی تھی۔