نیویارک اور پنٹاگون پر 14 برس پہلے القائدہ کے حملے سے لے کر اب تک امریکہ میں مسلمان انتہا پسندوں کے مقابلے میں غیر مسلم انتہا پسندوں کے ہاتھوں زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس بات کا انکشاف ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والی ’نیو امریکہ واشنگٹن‘ کی ایک رسرچ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ مسلم انتہا پسندوں کےمقابلے میں سفید فام بالادست اور حکومت مخالف عناصر اور دیگر غیر مسلموں نے نائین الیون کے بعد سے اب تک 48 شہریوں کی جان لی، جبکہ ان کے مقابلے میں، مسلم انتہا پسند جہادیوں کے ہاتھوں 26 شہری قتل ہوئے۔
رپورٹ میں چارلسٹن میں حال ہی میں 9 افریقیوں کو چرچ میں گھس کر قتل کرنے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے، ان غیر مسلم انتہا پسندوں کی بدترین کارروائی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں پولیس افسر، نسلی و مذہبی اقلیتوں اور عام شہری ان کا نشانہ بنے۔
رپورٹ کے مطابق، غیر مسلم انتہا پسندوں نے سانحہ نائین الیون سے لیکر اب تک کل 19 حملے کئے ہیں۔ نیو امریکہ کے پروگرام ایسوسی ایٹ، ڈیوڈ اسٹرمن اور ان کے نگراں پیٹر بارگین کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس دوران اسلامی انتہا پسندوں نے کل 7 حملے کئے۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے محقیق چارلس کرزمن اورڈیوک یونیورسٹی کے ڈیوڈ شائنزر کے ایک سروے میں ملک بھر کے 382 پولیس افسران اور شیرف پوچھا گیا کہ انھیں درپیش تین بڑے خطرات کون سے ہیں۔
اس کے جواب میں74 فیصد نے حکومت مخالف متشدد عناصر کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا، جبکہ 39 فیصد نے القائدہ سے متاثرہ لوگوں کے تشدد کو قرار دیا۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا اور ہوم لینڈ سیکورٹی اور ’پولیس ایگزیکٹو رسرچ فورم‘ کے شائع کردہ ڈاکٹر کرزمن کی رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں تعینات قانون نافذ کرنے والے ادارے بتاتے ہیں کہ ملک میں مسلم انتہا پسندوں کی جانب سے درپیش خطرات کے مقابلے میں مقامی رائیٹ ونگ کے انتہا پسندوں سے کہیں زیادہ خطرات درپیش ہیں۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس، لوویل کے جان جی ہورگن کے مطابق دہشت گردی سے متعلق عوامی سمجھ بوجھ اور حقیقی صورتحال میں فرق ہے۔ لیکن، اب لوگ یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ جہادیوں کی دہشت گردی کا خطرہ کم ہوا ہے اور ملک کو دائیں بازو کی حکومت مخالف دہشت گردوں کا خطرہ اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جب کسی دہشت گردی میں ملوث شخص غیر مسلم ہوتا ہے تو میڈیا اس کی ذہنی کیفیت پر اپنی توجہ مرکوز کرلیتا ہے؛ جب کوئی دہشت گرد مسلم نکلتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ضروری طور پر اس نے مذہبی جذبات کے تحت یہ کارروائی کی ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ نے کئی بار سرکاری ایجنسی کی جانب سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی چھان بین کی کوشش کی، لیکن ہر بار انھیں ریپبلکنز کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔