ایک پاکستانی تحقیقی مرکز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017ء میں شمال مغربی پاکستان کے قبائلی علاقے میں شدت پسند سرگرمیاں زوروں پر رہی ہیں۔
اسلام آباد میں واقع غیر سرکاری ادارے ’فاٹا رسرچ سینٹر‘ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران، ملک کے نیم قبائلی خطے میں شدت پسندوں اور پاکستانی سلامتی افواج کے درمیان سرگرمیوں میں 72 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے، جس علاقے کو وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) بھی کہا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جنوری سے مارچ کے عرصے کے دوران، 119 شدت پسند حملے ریکارڈ کیے گئے، جب کہ سال 2016 میں اِسی عرصے کے دوران، 69 حملے ہوئے۔
گذشتہ سال، پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور شدت پسندی میں خاصی کمی دیکھی گئی۔ پاکستان کے تنازع اور سکیورٹی مطالعے سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں ہونے والے شدت پسند حملوں میں 30 فی صد کمی دیکھی گئی، جس کے باعث ہلاکتوں میں 28 فی صد کی کمی آئی۔
اڑتیس صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ، جسے حالیہ دِنوں جاری کیا گیا، میں دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں سے متعلق اعداد اکٹھے کیے گئے ہیں۔ اس میں شدت پسندوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے فوجی اقدامات کا ذکر شامل ہے، جس میں قبائلی علاقے میں ہونے والے ڈرون حملے اور تلاش کی کارروائیاں شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے انتہاپسند حملوں کا بنیادی طور پر شہری ہی ہدف بنتے ہیں، جیسا کہ فاٹا میں 54 فی صد حملے شہریوں کے ہی خلاف ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’2017ء میں جنوری سے مارچ کے دوران، مجموعی طور پر 57 دہشت گرد حملے ہوئے جو مختلف دہشت گرد دھڑوں کے ہاتھوں ہوئے، جن میں 31 کا نشانہ شہری جب کہ 24 سکیورٹی اہل کار ہدف بنے‘‘۔
انسداد دہشت گردی کی سرگرمیوں میں آنے والی تیزی
رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آئی ہے، اور یہ کہ زیر نظر دورانیہ کو دیکھا جائے تو ’’دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں انسدادِ دہشت گردی کی سرگرمیوں کی شرح بڑھی ہے‘‘۔
سنہ 2014میں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ کارروائی کے نتیجے میں، خطے سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق، شدت پسند گروہ زیادہ تر حملے دیسی ساختہ آلات کی مدد سے کرتے ہیں۔’’اس سہ ماہی کے دوران، 27 واقعات میں دہشت گردوں نے 47 فی صد کے قریب یہ حملے دیسی ساختہ ہتھیاروں سے کیے‘‘۔
جماعت الاحرار، جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک دھڑا ہے، اُس کی جانب سے پاکستان میں خودکش حملوں کا ایک سلسلہ جاری رہا، اس نے فروری میں اس بات کا عہد کیا کہ وہ سرکاری مفادات کو نشانہ بنائے گا۔
سکیورٹی کے ایک ماہر، عرفان الدین نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو بتایا کہ ’’جماعت الاحرار، جو ٹی ٹی پی کا ایک دھڑا ہے، وہی شدت پسند حملوں میں اضافے کا ذمے دار ہے‘‘۔
منگل کے روز کرم ایجنسی کے قبائلی علاقے میں سڑک کنارے حملہ ہوا، جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک جب کہ نو زخمی ہوئے۔ پاکستانی طالبان سے منسلک ایک شدت پسند گروہ نے اس بم حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ہدف شیعہ اقلیت کے ارکان اور علاقے میں مردم شماری سے وابستہ سرکاری کارکنان تھے۔
امریکی اہل کار پاکستان میں داخلی شدت پسندی اور انتہا پسندی سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت میں کمی پر اکثر پاکستان پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
حکمراں، پاکستان مسلم لیگ کے ایک رہنما اور قانون ساز، عبد القیوم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حکومت فاٹا میں دہشت گردی میں آنے والی اِس لہر آگاہ ہے اور وہ اسے ختم کرنے کے لیے اقدام کر رہی ہے۔