اوباما، خامنہ اِی کے مابین خط و کتابت کا تبادلہ: رپورٹ

اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسٹر اوباما کی جانب سے اکتوبر میں تحریر کردہ مراسلے کے جواب میں، مسٹر خامنہ اِی نے ’حالیہ ہفتوں کے دوران‘ اپنے جواب میں داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ ایران تعاون کے امکان کی بات کی ہے، اگر نیوکلیئر معاملے پر سمجھوتا طے پا جاتا ہے

اخبار ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور امریکی صدر کے درمیان مراسلوں کا تبادلہ ہوا ہے، ایسے میں جب دونوں فریق جوہری معاملے پر ایک معاہدہ طے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

جمعے کے روز آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں، اخبار نے کہا ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ اِی نے امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے کیے گئے سلسلہ جنبانی کا جواب دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسٹر اوباما کی جانب سے اکتوبر میں تحریر کردہ مراسلے کے جواب میں، مسٹر خامنہ اِی نے ’حالیہ ہفتوں کے دوران‘ اپنے جواب میں داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ ایران تعاون کے امکان کی بات کی ہے، اگر نیوکلیئر معاملے پر سمجھوتا طے پا جاتا ہے۔


ایک نامعلوم ایرانی سفارت کار نے ’دِی وال اسٹریٹ جرنل‘ کو بتایا ہے کہ مسٹر اوباما کو دیے گئے جواب میں، رہبرِ اعلیٰ کا جواب ’بااحترام‘، لیکن مبہم نوعیت کا ہے۔

’دِی جرنل‘ کے مطابق، اس سے قبل مسٹر خامنہ اِی کی جانب سے مسٹر اوباما کو بھیجے گئے ایک اور مراسلے کی خبر بھی موصول ہوئی ہے۔

اخبار نے کہا ہے کہ ماضی کے اس مراسلے میں، اُن ’زیادتیوں کے ایک سلسلے کا ذکر کیا گیا ہے‘، جو رہبر اعلیٰ کے خیال میں، گذشتہ 60 برسوں کے دوران ایران کے خلاف کی گئی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک اہل کار نے، جِن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، ایرانی راہنما کی جانب سے سنہ 2009 کے مراسلے کی تصدیق کی ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر نہ تو وائٹ ہاؤس، نہی حکومتِ ایران نے اِس خط و کتابت کی تصدیق کی ہے۔


ایران اور ایک گروپ جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل ہیں، 24 مارچ سے پہلے جوہری تنازع پر سمجھوتے کا ایک خاکہ طے کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو ایرانی جوہری سرگرمیوں کے بارے میٕں سوالات کا تصفیہ کرنے کی برسوں سے جاری کوشش کا ایک حصہ ہوگی۔

حتمی سجھوتے تک پہنچنے کے لیے، دونوں فریق نے یکم جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔

پی فائیو پلس ون نامی گروپ اس بات کا خواہاں ہے کہ ایران جوہری افزودگی کی سطح میں کمی لائے، تاکہ یہ بات یقینی بنائے جائے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔ ایران اس بات پر مصر ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، اور چاہتا ہے کہ لگائی گئی تعزیرات کو واپس لیا جائے جن کے نتیجے میں اُس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔