رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں حکومتی افواج اور مخالفین کے مابین گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری محاذ آرائی کے دوران میں اب تک 1300 کے لگ بھگ بچے ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے کئی کو باقاعدہ پھانسی دی گئی۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام میں جاری محاذ آرئی کے دوران میں بچوں کا جان بوجھ کر استحصال کیا جارہا ہے۔
جنگ یا تشدد کا شکار علاقوں میں مقیم بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم 'وار چائلڈ' نے پیر کو جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنی تحقیق کے دوران میں سیکڑوں بچوں کی ہلاکتوں اور فوجی کاروائیوں کے لیے ان کی جبری بھرتی کے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔
تنظیم نے اپنی رپورٹ اقوامِ متحدہ، 'ہیومن رائٹس واچ' اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی مطبوعات اور شام میں تشدد کا نشانہ بننے والوں اور پرتشدد واقعات کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں حکومتی افواج اور مخالفین کے مابین گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری محاذ آرائی کے دوران میں اب تک 1300 کے لگ بھگ بچے ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے کئی کو باقاعدہ پھانسی دی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں حکومت مخالف تحریک کے گڑھ شمالی شہر حما کےنزدیکی قصبے حولہ میں مئی کے اواخر میں سرکاری افواج کے ہاتھوں قتل ہونے والے سو سے زائد عام شہریوں میں سے 49 بچے تھے۔
واضح رہے کہ شامی مسلح افواج گزشتہ برس سے جاری حکومت مخالف تحریک کو دبانے کے لیے حزبِ اختلاف کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے۔ ملک میں جاری پرتشدد واقعات میں اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 19 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی ایک حامی تنظیم کے مطابق رواں ماہ شامی افواج کی پرتشدد کاروائیوں اور باغیوں کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک پونے تین ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
'وار چائلڈ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان جاری محاذ آرائی میں آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی لڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
رپورٹ میں شامی افواج اور باغیوں، دونوں کو بچوں کو جنگ میں جھونکنے اور ان کے حقوق پائمال کرنے پر موردِ الزام ٹہرایا گیا ہے۔
جنگ یا تشدد کا شکار علاقوں میں مقیم بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم 'وار چائلڈ' نے پیر کو جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنی تحقیق کے دوران میں سیکڑوں بچوں کی ہلاکتوں اور فوجی کاروائیوں کے لیے ان کی جبری بھرتی کے ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔
تنظیم نے اپنی رپورٹ اقوامِ متحدہ، 'ہیومن رائٹس واچ' اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی مطبوعات اور شام میں تشدد کا نشانہ بننے والوں اور پرتشدد واقعات کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کی بنیاد پر مرتب کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں حکومتی افواج اور مخالفین کے مابین گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری محاذ آرائی کے دوران میں اب تک 1300 کے لگ بھگ بچے ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے کئی کو باقاعدہ پھانسی دی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں حکومت مخالف تحریک کے گڑھ شمالی شہر حما کےنزدیکی قصبے حولہ میں مئی کے اواخر میں سرکاری افواج کے ہاتھوں قتل ہونے والے سو سے زائد عام شہریوں میں سے 49 بچے تھے۔
واضح رہے کہ شامی مسلح افواج گزشتہ برس سے جاری حکومت مخالف تحریک کو دبانے کے لیے حزبِ اختلاف کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے۔ ملک میں جاری پرتشدد واقعات میں اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 19 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی ایک حامی تنظیم کے مطابق رواں ماہ شامی افواج کی پرتشدد کاروائیوں اور باغیوں کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک پونے تین ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
'وار چائلڈ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان جاری محاذ آرائی میں آٹھ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی لڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
رپورٹ میں شامی افواج اور باغیوں، دونوں کو بچوں کو جنگ میں جھونکنے اور ان کے حقوق پائمال کرنے پر موردِ الزام ٹہرایا گیا ہے۔