’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق امریکی صدر براک اوباما پانچ سال تک اس بات سے بے خبر رہے کہ اُن کے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی آنگلا مرخیل سمیت عالمی رہنماؤں کے فون ’ٹیپ‘ کرتی رہی۔
امریکہ کے ایک بڑے اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر براک اوباما پانچ سال تک اس بات سے بے خبر رہے کہ اُن کے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی جرمنی کی چانسلر آنگلا مرخیل سمیت عالمی رہنماؤں کے فون ’ٹیپ‘ کرتی رہی۔
لیکن اخبار کے مطابق عالمی رہنماؤں کی نگرانی کا یہ پروگرام اب بند کر دیا گیا ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے پیر کو اپنی رپورٹ میں نام ظاہر کیے بغیر امریکہ عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ صدر اوباما کو چند ماہ قبل ہوئے داخلی جائزے کے بعد ہی نگرانی کے اس معاملے کا عمل ہوا۔
اخبار کی خبر کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ’این ایس اے‘ نے دنیا کے 35 رہنماؤں کے ٹیلی فون ’ٹیپ‘ کیے تھے، اور وائٹ ہاؤس کو اس پروگرام کا علم ہونے کے بعد این ایس اے نے اپنا بیشتر آپریشن روک دیا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ ’این ایس اے‘ کے جاسوسی کے آپریشنز کی تعداد اپتی زیادہ ہے کہ ان سب کے بارے میں صدر کو آگاہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہو سکتا۔
تاہم جرمنی کے ایک اخبار ’بلڈ ایم سونٹیگ‘ کے مطابق اُسے ایک دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ صدر براک اوباما کو 2010 میں این ایس اے کی طرف سے بریفنگ دی گئی، جس میں انھیں جرمنی کی چانسلر کے موبائل فون کی نگرانی سے آگاہ کیا گیا۔
لیکن این ایس اے اس کی تردید کرتی آئی ہے کہ جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کی نگرانی کے مبینہ معاملے پر کبھی صدر اوباما سے بات چیت کی گئی ہو۔
جرمنی اپنے انٹیلی جنس کے عہدیدار واشنگٹن بھیج رہا ہے جس میں چانسلر مرخیل کے ٹیلی فون کی جاسوسی سے متعلق الزامات پر بات چیت کی جائے گی۔
لیکن اخبار کے مطابق عالمی رہنماؤں کی نگرانی کا یہ پروگرام اب بند کر دیا گیا ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے پیر کو اپنی رپورٹ میں نام ظاہر کیے بغیر امریکہ عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ صدر اوباما کو چند ماہ قبل ہوئے داخلی جائزے کے بعد ہی نگرانی کے اس معاملے کا عمل ہوا۔
اخبار کی خبر کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ’این ایس اے‘ نے دنیا کے 35 رہنماؤں کے ٹیلی فون ’ٹیپ‘ کیے تھے، اور وائٹ ہاؤس کو اس پروگرام کا علم ہونے کے بعد این ایس اے نے اپنا بیشتر آپریشن روک دیا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ ’این ایس اے‘ کے جاسوسی کے آپریشنز کی تعداد اپتی زیادہ ہے کہ ان سب کے بارے میں صدر کو آگاہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہو سکتا۔
تاہم جرمنی کے ایک اخبار ’بلڈ ایم سونٹیگ‘ کے مطابق اُسے ایک دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ صدر براک اوباما کو 2010 میں این ایس اے کی طرف سے بریفنگ دی گئی، جس میں انھیں جرمنی کی چانسلر کے موبائل فون کی نگرانی سے آگاہ کیا گیا۔
لیکن این ایس اے اس کی تردید کرتی آئی ہے کہ جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کی نگرانی کے مبینہ معاملے پر کبھی صدر اوباما سے بات چیت کی گئی ہو۔
جرمنی اپنے انٹیلی جنس کے عہدیدار واشنگٹن بھیج رہا ہے جس میں چانسلر مرخیل کے ٹیلی فون کی جاسوسی سے متعلق الزامات پر بات چیت کی جائے گی۔