|
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل آٹھ اتحادی جماعتوں کے ارکان کا پارلیمنٹ ہاؤس میں مشترکہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور دیگر اتحادی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ اس وقت تک نامزد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔
اس طرح کا اجلاس ہر وزیرِ اعظم کے انتخاب سے پہلے اتحادی جماعتیں منعقد کرتی ہیں تاکہ نمبر گیم کو پورا کیا جا سکے۔ اس مرتبہ بھی اتحادی جماعتوں کے ارکان یہ تسلی کر کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔
وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے اجلاس 11 بجے شروع ہونا تھا، تاہم یہ ایک گھنٹہ دو منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔
اجلاس شروع ہوتے ہی ایوان میں نعرے گونجنے لگے، تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے احترام میں نعرے بازی رک گئی مگر جیسے ہی یہ مرحلہ مکمل ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان اپنے بینچز سے اٹھ کر اسپیکر کے روسٹرم کے سامنے جمع ہو گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے ہاتھوں میں عمران خان کی تصاویر تھیں، پچھلے دو اجلاسوں اور تیسرے اجلاس کے دوران ہونے والے احتجاج میں فرق یہ نظر آیا کے سنی اتحاد کونسل کے ارکان تین مارچ کے اجلاس میں عمران خان کی تصاویر والے ماسک پہن کر اسمبلی نہیں آئے تھے۔ لیکن نعرے بازی کا دورانیہ گزشتہ اجلاسوں کی نسبت زیادہ تھا۔
سنی اتحاد کونسل کے جمشید دستی شو پالش اور برش ہاتھوں میں اٹھا کر بار بار شہباز شریف کو دکھا رہے تھے۔
قومی اسمبلی کے پچھلے دو اجلاسوں سے تیسرے اجلاس میں یہ بھی مختلف تھا کہ اس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی حکمتِ عملی بنا کر اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
اجلاس شروع ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے نواز شریف اور شہباز شریف کو اپنے حصار میں لے لیا۔ تاکہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان قریب نہ آ سکیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ارکان نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر والے پلے کارڈز ساتھ لے آئے تھے۔ جیسے ہی سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے عمران خان کی تصاویر والے پلے کارڈز نکالے مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے بھی اپنی قیادت کی تصاویر ان کے سامنے کر دیں۔
ارکان کے درمیان قومی اسمبلی کے تیسرے اجلاس میں نعرے بازی کا سخت مقابلہ دکھائی دے رہا تھا جیسے ہی سنی اتحاد کے ارکان 'گو نواز گو' کے نعرے لگاتے مسلم لیگ (ن) کے ارکان ان کے جواب میں 'گو عمران گو' کے نعرے لگاتے رہے۔
پیپلز پارٹی کے ارکان بھی سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے مگر سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا ہدف صرف نواز شریف اور شہباز شریف تھے۔
پیپلز پارٹی سمیت اور کسی حکومتی اتحادی جماعت کی قیادت کے خلاف نعرے بازی نہیں کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی اجلاس میں شرکت کرنا مجبوری اس لیے تھی کے ان کے چھوٹے بھائی وزیر اعظم کا انتخاب لڑ رہے تھے۔
نواز شریف کو تیسرے اجلاس میں بھی اپنے خلاف سخت نعرے بازی کو برداشت کرنا پڑا۔ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نواز شریف کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگاتے رہے۔
ایوان میں نعرے بازی اس وقت بند ہوئی اور سناٹا چھایا جب ارکانِ اسمبلی وزیرِ اعظم کے انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے لابیز میں چلے گئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزیرِ اعظم کے انتخاب سے پہلے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے اور اس کے بعد لابیز کو لاک کرنے کے احکامات شدید ہنگامہ آرائی کے دوران دیے۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے لابی 'ای' اور عمر ایوب کو لابی 'بی' الاٹ کی گئی تھی۔
جب اراکین لابیز میں چلے گئے تو بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل ایوان میں موجود رہے ان کے پاس پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر چل کر گئے مگر اختر مینگل نے اپنا ووٹ کسی کو بھی نہیں دیا۔
شیر افضل مروت اجلاس کے دوران حکومتی بینچز کے قریب سے اس طرح گزر رہے تھے جیسے ہر ایک رکن کو غور سے دیکھنا چاہتے ہوں۔ اس طرح ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا شہباز شریف 201 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے اور عمر ایوب 92 ووٹ لے سکے۔
شہباز شریف کو جیسے ہی منتخب وزیرِ اعظم قرار دیا گیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے 'جعلی مینڈیٹ نامنظور' کے نعرے لگائے۔ شہباز شریف کو آصف زرداری اور نواز شریف نے گلے لگا کر مبارک باد دی۔ شہباز شریف نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کے پاس جا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور حکومتی ارکان کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد وزیرِ اعظم نے ایک گھنٹہ 24 منٹ تقریر کی، عمر ایوب نے منتخب وزیرِ اعظم کی طویل تقریر کے مقابلے میں اس سے بھی طویل تقریر کی۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی کے تیسرے اجلاس کے دوران بھی ہنگامہ آرائی اور مسلسل نعرے بازی سن کر ایک صحافی نے سوال کیا کہ "کب تک ایسا چلے گا۔" میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔