رسائی کے لنکس

الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر امریکی ارکانِ کانگریس کا خط؛ کیا پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوں گے؟


پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکہ کے بعض قانون سازوں کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات سے متعلق حال ہی میں صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن کو لکھے گئے خط پر کسی تبصرے سے گریز کیا ہے۔

اس خط میں کانگریس کے ارکان نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات تک پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعے کو وائس امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان اس خط سے آگاہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ خط امریکہ کے کچھ قانون سازوں نے اپنی حکومت کے لیے لکھا ہے۔ چوں کہ یہ خط پاکستان کی حکومت یا کسی ادارے کو نہیں لکھا گیا ہے اس لیے ان کے بقول دفترِ خارجہ اس خط پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔

امریکی قانون سازوں کی طرف سے یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے حکام کا دعویٰ ہے کہ آٹھ فروری کو ملک میں صاف اور شفاف انداز میں انتخابات منعقد کیے گئے۔

پاکستان کی دفترِ خارجہ کی ترجمان نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک اور فعال جمہوریت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ادارے اور عدالتیں انتخابات سے متعلق شکایات حل کرنے کی استعداد رکھتی ہیں۔

کانگریس کے 30 سے زائد اراکین نے بدھ کے روز بائیڈن حکومت کے نام ایک خط میں پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج پر سوال اٹھاتے ہوئے پاکستان سے ان کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکساس سے کانگرس کے ڈیموکریٹ رکن گریگ کسار کی طرف سے لکھے گئے خط میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے بغیر ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی نئی حکومت کو تسلیم نہ کرے۔

کانگریس کے ارکان کی جانب سے بائیڈن حکومت کے نام کے اس خط کی اہمیت اور اس کے اثرات مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

خط کا اثر کیا ہوگا؟

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں حکومت کے فیصلے صرف امریکی کانگرس کے مطالبہ پر نہیں کے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم کہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت کی طرف سے پاکستان میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی الیکشن کی بنیاد پر آنے والی حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا ہو۔

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ اگر مصر کی مثال سامنے رکھیں تو وہاں ہونے والے انتخابات میں مبینہ طور انتخابی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھی گئی ہے لیکن صدر سیسی کی حکومت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسی کئی اور مثالیں موجود ہیں جہاں پر امریکی انتظامیہ نے انتخابی نتائج پر ہونے والے اعتراضات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ امریکی ریاست ٹیکساس سے ڈیموکریٹ رکن کانگریس گریگ کسار کی طرف سے لکھا گیا ہے جہاں پاکستانی نژاد امریکی شہری کافی سرگرم ہیں اور ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کے حامیوں کی بڑی تعداد ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے امریکہ کے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے لابنگ بھی جاری ہے۔ عاقل ندیم کے خیال میں امریکہ کے بعض حلقوں میں پی ٹی آئی کے بارے میں مثبت رائے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ خظ پی ٹی آئی کی لابنگ کی وجہ سے نہیں لکھا گیا ہے بلکہ امریکی قانون سازوں کا اپنا اقدام ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہو، الیکشن صاف و شفاف ہوں اور آزادی اظہار کا احترام کیا جائے۔

سابق سفیر عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ کئی مرتبہ ارکانِ کانگریس اپنے حلقوں میں بسنے والے شہریوں کے اپنے آبائی ممالک سے متعلق تحفظات سے حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے بھی ایسے اقدامات کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج کے لیے امریکی امداد سیاسی جماعتوں کو دبانے کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے: رکنِ کانگریس
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:39 0:00

’امریکہ کے لیے اپنا مفاد اہم ہے‘

رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کسی خط پر امریکہ انتظامیہ عمل نہیں کرتی ہے کیوں کہ ان کے پیشِ نظر امریکہ کے مفادات ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رسول بخش رئیس نے کہا کہ اگر کسی بھی ملک میں مبینہ طور مشکوک انتخابات کے نتیجے میں کوئی حکومت منتخب ہو کر آ جائے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسے تسلیم نہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے بعض قانون سازوں کی طرف سے پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کے بارے میں خط سے دونوں ممالک کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کی طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ نئی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے جو امریکہ کے لیے اہم معاملات کو براہ رست ڈیل کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے سے متعلق مثبت عندیہ دیا گیا ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس معاملے میں آئی ایم ایف کو امریکہ کی آشیر آباد حاصل ہو گی۔تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ کا محکمۂ خارجہ پاکستان کے انتخابات کے بارے میں شکایات کی تحقیقات کی بات کر چکا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG