صبح سویرے جب 16ویں نو منتخب سندھ اسمبلی کی کارروائی کے لیے نکلا تو شارع فیصل پر ایف ٹی سی کے مقام پر سڑک پر رکاوٹیں کھڑی دیکھ کر انداز ہو گیا کہ آگے بھی صورتِ حال کشیدہ ہو سکتی ہے۔
پولیس سے معلوم کیا کہ کیا راستہ کھلا ہے یا نہیں تو پولیس اہل کار نے پہچان لیا کہ میں صحافی ہوں۔ کہنے لگا کہ "سر آپ کے لیے تمام راستے کھلے ہیں چلے جائیں۔" لیکن عوامی تحریک، مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں کو شہر کے ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
کچھ آگے بڑھا تو فوارہ چورنگی پر پھر ایک اور کنٹینر نظر آیا۔ اسے عبور کیا تو پھر دین محمد وفائی روڈ پر مزید کنٹینرز تھے جنہیں کراس کرنا تھا۔ وہاں سے آگے نکلا تو آرٹس کونسل چورنگی پر پولیس کی سینکڑوں کی نفری، واٹر کینن اور قیدی وین کھڑی دیکھی۔
اطراف کی جانب آنے اور جانے والی سڑکیں مکمل طور پر بند تھیں۔ صرف صحافیوں اور نو منتخب اراکین کو اپنا تعارف کرا کر ہی اسمبلی کی جانب جانے کی اجازت تھی۔
اسمبلی کے قریب دکانیں بند تھیں، حتیٰ کہ مختلف دفاتر اور بینک برانچز میں تعینات ملازمین کو بھی کام پر جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ قریب موجود رہائشی عمارت کے مکینوں کو بھی گھر سے نکلنے اور واپس آنے کے لیے پولیس کو کارڈ دکھانا لازم تھا۔
اس دوران ایم آر کیانی روڈ، ایوانِ صدر روڈ سے آرٹس کونسل آنے والی سڑک، سرور شہید روڈ، کورٹ روڈ، سر غلام حسین ہدایت اللہ روڈ اور آس پاس کی سڑکیں مکمل طور پر بند تھیں۔
گاڑی پارک کرنے کے بعد سندھ اسمبلی کے اندر جانا ایک اور معرکہ تھا۔ جو ابھی ہمیں لڑنا تھا۔ کیوں کہ وہاں مہمانوں کی گیلری میں جا کر ایوان کی کارروائی دیکھنے کے لیے آنے والوں کا رش بھی تھا۔
ابھی اسمبلی کے قریب ہی تھا تو دیکھا کہ عوامی تحریک کی خواتین نہ جانے احتجاج کرتے ہوئے یہاں کیسے پہنچ گئیں جنہیں پولیس کی خواتین اہل کاروں کے شدید لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا اور ان چند خواتین کو پولیس وہاں سے لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔
اسمبلی کے اندر آج کئی ماہ کے بعد چہل پہل تھی، پارکنگ میں بعض اراکین کی نئی اور چمکتی گاڑیوں کی بہتات تھی اور کئی اراکین کو پیدل بھی اسمبلی میں جاتے دیکھا۔
راستے میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے نو منتخب رکن سید حفیظ الدین سے ملاقات ہو گئی۔ دعا سلام کے بعد کہنے لگے کہ "ایوان میں تو آ گیا ہوں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ اپنے حلقے کے لیے کیسے کچھ کر سکتا ہوں کیوں کہ مسائل ہی اس قدر زیادہ ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے کچھ کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا کہ لوگوں کو ریلیف فراہم کروں۔"
کئی دیگر اراکین سے ملاقات کے بعد جب ہم میڈیا گیلری میں پہنچے تو اجلاس شروع ہونے میں کچھ دیر تھی۔ صحافی دوستوں سے ملاقات میں ہمیں ایک اور رکن اسمبلی مل گئے جو تیسری بار ایم پی اے منتخب ہو کر پہنچے تھے۔
کہنے لگے کہ آپ صحافیوں سے کچھ زیادہ توقع تو نہیں۔ لیکن آپ کو پیپلز پارٹی کی انتخابات میں کارکردگی کو داد دینا ہو گی کیوں کہ 1977 کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایوان میں پہنچی ہے۔
میں نے اپنے صحافی دوست سے سرگوشی میں پوچھا کہ آخر پیپلزپارٹی نے ایسی کون سی کارکردگی دکھائی ہے کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور سے بھی زیادہ پذیرائی ملی۔ تو صحافی کا کہنا تھا کہ "بھئی پیپلز پارٹی کی کامیابی میں ان کا اپنا ہاتھ کم اور مخالفین کی ناکام سیاسی حکمت عملی کا ہاتھ زیادہ ہے۔"
اسمبلی اجلاس میں اردو، سندھی اور انگریزی زبان میں حلف برداری کے بعد اراکین کی جانب سے دستخط کا سلسلہ شروع ہوا تو آغا سراج درانی فرداً فرداً ایک ایک رکن سے ملے اور انہیں مبارک باد دی۔
حلف برداری کی تقریب میں روایتی گرم جوشی کی کمی دیکھی گئی۔ اپوزیشن بینچز پر موجود ایم کیو ایم اراکین کی جانب سے کوئی خاص سرگرمی نظر نہ آئی تو دوسری جانب حلف کے بعد ماضی میں وزیٹرز گیلریز سے بلند ہونے والے جئے بھٹو کے بلند نعروں میں بھی وہ دم خم نظر نہ آیا جو اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کافی زیادہ نظر آتا تھا۔
اس موقع پر اسمبلی میں نومنتخب اراکین کے لیے پرتکلف ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ لیکن ہمیں ایوان کے نسبتاً پُرسکون ماحول سے نکل کر اپنی صحافتی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر باہر بھی جانا تھا۔
باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ جی ڈی اے، جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف کے اراکین پریس کلب کے بار جمع ہو رہے ہیں اور وہاں سے ایک ساتھ اسمبلی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بھاگے بھاگے کلب تک پہنچے تو دیکھ کر بڑی حیرانگی ہوئی کہ یہاں تقریباً 10 جماعتوں کے بمشکل 200 کارکن بھی جمع نہیں ہو پائے تھے۔ جی ڈی اے کے رہنما سردار رحیم نے بتایا کہ ان کے درجنوں کارکنوں کو مختلف علاقوں میں روک لیا گیا ہے اور انہیں کلب تک آنے نہیں دیا جا رہا۔
لیکن کئی گھنٹے گزر گئے اور اسمبلی اجلاس بھی ختم ہو گیا مگر احتجاج کی کال دینے والوں کے کارکن 500 سے زائد تعداد میں بھی یہاں نہ پہنچ پائے۔ امید تھی کہ شاید جی ڈی اے 16 فروری کو جام شورو بائی پاس کی طرح مظاہرہ کرے گی۔ لیکن یہاں تو مناظر ہی کچھ اور تھے اور چند ایک جگہ ہلکے پھلکے لاٹھی چارج اور شیلنگ کے بعد پولیس نے تقریباً ہر جگہ ہی مظاہرین پر باآسانی قابو پا لیا۔
ایک صحافی دوست کی رائے میں یہ شو تو مکمل فلاپ ہی نظر آیا، چند گھنٹے کے احتجاج کے بعد جماعتوں نے پرامن طور پر منتشر ہونے کا اعلان بھی کر دیا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نو منتخب اراکین کو حلف لینے سے روکا جائے گا اور سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا بھی دیا جائے گا۔
مگر یہ سب باتیں ہوا میں اڑ گئیں اور اجلاس بھی ہوا اور حلف بھی بلکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ بھی بخوبی طے پا گیا۔