روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اب تک لیبیا میں خلیفہ حفتر کی حمایت میں لڑنے والے کرائے کے 35 روسی سپاہی ہلاک ہو چکے ہیں، جس فوجی جنرل کو معمر قذافی کے مطلق العنان دور کی باقیات سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے ہی اس سال کے اوائل میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں لڑائی کا آغاز کیا تھا۔ طرابلس بین الاقوامی سطح پر ملک کا تسلیم شدہ دارالحکومت ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کرائے کے ان سپاہیوں کا تعلق ’ویگنر گروپ‘ سے تھا، جو عسکری کانٹریکٹر، یوجنی پرگوزن کے ادارے سے منسلک تھے، جس کاروباری شخص کو پوٹن کا باورچی کہا جاتا ہے، چونکہ انھیں کریملن کی جانب سے منافع بخش کیٹرنگ کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں۔
یہ ہلاکتیں طرابلس کے مضافات میں ہونے والی فضائی کارروائی کے دوران ہوئیں۔
ہلاکتوں کی اطلاعات کے بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ کے اتفسار پر روسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان، ماریا زخارورا نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی ’’تفصیلی معلومات‘‘ نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس قسم کے سوالات کے لیے روسی وزارت دفاع سے رابطہ کیا جائے۔ حفتر کی فوجیں کئی ماہ سے سنگین لڑائی میں جُتی ہوئی ہیں۔
بعدازاں، خاتون ترجمان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ کرائے کے قاتلوں کا کریملن سے کوئی تعلق ہے، یہ کہتے ہوئے کہ قانونی طور پر روس کے پاس اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ’’نجی روسی شہریوں کو روک سکے کہ وہ بیرون ملک جا کر محافظوں کا کام نہ کریں‘‘۔
بقول ان کے، ’’اگر روسی شہری کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ہمارے سفارتی مشن ان کو مدد فراہم کرتے ہیں‘‘۔
’مدوزا‘ نامی ایک خودمختار تحقیقاتی ویب سائٹ نے جمعرات کو خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ ایک فضائی حملے میں ’ویگنر گروپ‘ کے 35 جنگجو ہلاک ہوئے۔
ویب سائٹ کا صدر دفتر روس سے باہر واقع ہے، اور اِن دنوں روسی سینسرشپ کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزام پر روسی پارلیمانی کمیشن ان کے خلاف تفتیش کر رہا ہے۔
اس ویب سائٹ نے ’ویگنر گروپ‘ اور سابق روسی فوجیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ہلاک شدگان کا تعلق زیادہ تر روس کے کروسنوڈار اور مرمانسک علاقوں سے تھا۔
ان میں سے چند جنگجو، اس سے قبل مشرقی یوکرین کے علاقے، ڈنباس کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں، جہاں پانچ برس کے تنازعے کے دوران 13000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔