ایران کے مقامی میڈیا نے پیر کو بتایا ہے کہ مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف کئی مہینوں سے جاری مظاہروں کو دبانے کی کوشش میں ایرانی حکام صحافیوں کو بھی گرفتار کر رہے ہیں تاکہ انہیں خبریں دینے سے باز رکھا جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو دنوں میں ایرانی عہدے داروں نے تین خواتین صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔
اصلاح پسند اخبار اعتماد نے تہران میں صحافیوں کی یونین کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں، کم از کم تین خواتین صحافیوں، ملیکہ ہاشمی، سیدہ شفیع اور مہرنوش زری کو تہران سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اخبار نے کہا کہ تینوں خواتین کو اوین جیل منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے اکثر افراد کو رکھا جا رہا ہے۔
سیدہ شفیع ایک آزاد صحافی اور ناول نگار ہیں۔ جب کہ مہر نوش زری مختلف اصلاحی اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق، ملیکہ ہاشمی شہار نامی ادارے کے لیے کام کرتی ہیں۔
تازہ ترین گرفتاریوں کی وجوہات کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
اخبار کے اندازے کے مطابق چار ماہ قبل ملک میں بدامنی شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 80 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
SEE ALSO: ایران میں مظاہروں کی کوریج پر درجنوں صحافی گرفتارمقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے آخر میں، 300 سے زیادہ ایرانی صحافیوں نے ایک بیان پر دستخط کیے جس میں ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے اور ان کے شہری حقوق چھیننے پر حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ گرفتاریاں ان مظاہروں کے بعد شروع ہوئیں جو گزشتہ سال 16 ستمبر کو 22سالہ مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ مہساکو حکومت کے مقرر کردہ اخلاقی قواعد پر عمل درآمد کرانے والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران جا رہی تھی۔ اس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے اپنے سر کو لباس کے کوڈ کے مطابق ڈھانپا ہوا نہیں ہے۔
مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اب تک 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 19 ہزار سے زیادہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایران کی عدلیہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دو ہزار کے لگ بھگ افراد پر توڑ پھوڑ، حکومت مخالف نعرے بازی، اور سیکیورٹی اہل کاروں پر حملہ کرنے سمیت خدا کے خلاف جنگ جیسے جرائم کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے۔ ان مقدموں میں اب تک تین نوجوانوں کو پھانسی دی جا چکی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کم و بیش ایک سو نوجوانوں کو پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدے دار نے کچھ عرصہ پہلے اپنے انٹرویو میں مظاہروں کے دوران دو سو افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دنیا کے اکثر ممالک ان وحشیانہ سزاؤں پر ایران کی مذمت کر چکے ہیں۔ سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان سزاؤں کا مقصد لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کر کے انہیں مظاہروں میں شرکت سے باز رکھنا ہے۔
(اس خبر کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)