افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالے سات ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن افغانستان کے مسائل کم نہیں ہو رہے اور ملک مزید بحرانوں کی زد میں ہے۔
آزادئ اظہار ہو یا لڑکیوں کی تعلیم، روزگار ہو یا انسانی حقوق جیسے اہم معاملات ، طالبان قیادت نے عالمی برادری کے ساتھ تعاون پرمکمل چپ ساد ھ لی ہے۔
گزشتہ برس 15 اگست کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام اور بعض ماہرین توقع کر رہے تھے کہ بیس سالہ جنگ کے بعد شاید طالبان کی سیاسی سوچ میں پختگی آچکی ہوگی اور اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں وہ اپنی سخت گیرپالیسیوں میں لچک دکھا کرنرمی کا مظاہرہ کریں گے تاہم حقیقت اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے وزارتِ تعلیم کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود طالبان نے لڑکیوں کے اسکول کچھ ہی دیر بعد بند کر دیےاور تاحال اسکول کھولنے سے متعلق کوئی نیا اعلان سامنے نہیں آیا۔
طالبان نے وائس آف امریکہ کی نشریات کو افغانستان میں بند کر دیاہے۔ اسی طرح بی بی سی کی پشتو، ازبک اور فارسی زبانوں میں نشریات کو بھی مقامی میڈیا پر نشر کرنے سے منع کیا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی بندش کے حوالے سے افغان عوام میں تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔طالبان کی جانب سے اس بابت کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
سینئر صحافی اور مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے طالبان کی سوچ میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی جس کی بنیادی وجہ ان کے درمیان آپس کی کشمکش ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد رشید نے کہا کہ طالبان کو یہ خدشہ ہے کہ اگر خواتین کو آزادیٔ اظہار کی آزادی دی جائے تو وہ نوجوان سپاہی جو ایک قدامت پسند نظریے کو برسوں سے فالو کرتے آ رہے ہیں وہ داعش کی جانب بھٹک سکتے ہیں۔ اس لیے طالبان عالمی برادری کا ہر قسم کا دباؤ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ تین دہائیوں کے دوران طالبان نے کوئی ایسی سیاسی تنظیم نہیں بنائی جو معاملات کو صلاح ومشورے سے حل کرنے کی سوچ پر یقین رکھتی ہو۔ ان کے بقول اہم معاملات پر قوم کو اعتماد میں لینا تو دور کی بات طالبان کے اندر بااثر افراد کو بھی کچھ فیصلوں کا پتا نہیں ہوتا ہے کہ آخر فیصلے کون کر رہا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان: سات ماہ بعد لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی بند کرنے کا حکمطالبان نےلڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کو ایک تیکنیکی وجہ قرار دیا تھا۔ طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے بدھ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ "افغانستان میں لڑکیوں کو اسکولوں سے منع نہیں کیا جا رہا۔ صرف تیکنیکی بنیادوں پر لڑکیوں کے یونیفارم پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے۔"
شریفہ زرمتی کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو افغان حکومت کی جانب سے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل میں شامل تھیں۔ اس سے قبل وہ وزارتِ خواتین کے امور کی ترجمان بھی رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ اگر نوجوان خواتین نسل کو تعلیم کے حق سے محروم رکھا جائے تو پھر افغانستان کی خواتین طب، انجینئرنگ اور درس و تدریس کے شعبے سے مکمل طور پر غائب ہو جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ا گرطالبان یہ سوچ رکھتے ہیں کہ وہ اس نظام کو عوام کی تائید کے بغیر چلا پائیں گے تو یہ ان کی خوش فہمی ہو گی۔اس لیے بہتر ہے کہ اسلامی احکامات کا احترام کرتے ہوئے لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے مزید محروم نہ کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان دو گروہ میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر چاہتا ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے جب کہ افغانستان میں موجود قیادت مقامی جنگجوؤں کو ناراض کرنا نہیں چاہتی۔
'طالبان کو اقتصادی امداد کی ضرورت ہے'
پژواک نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق طالبان کے دوحہ دفتر کی قیادت چاہتی ہے کہ خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق جیسے مطالبات پر عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اپنی حکومت تسلیم کروالی جائے۔ اگر وہ جلد بازی میں عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہے تو انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کے جنگجو ناراض نہ ہو جائیں جس پر طالبان قیادت کا تمام تر جنگی انحصار ہے۔
جاوید حمیم کے مطابق ملک کی موجودہ معاشی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے طالبان کو اقتصادی امداد کی ضرورت ہے تاہم طالبان کی قیادت گزشتہ دور حکومت کی طرح زیادہ شاہ خرچ نظر نہیں آتی ۔ ان کے جنگجو آج بھی سول کپڑوں میں ملبوس نظر آتے ہیں اور لائف اسٹائل میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ان کے بقول، " اگر عالمی برادری کی جانب سے طالبان پر مزید دباؤ بڑھتا ہے تو وہ اسے دین کی راہ میں بھوک، پیاس، مشقت کو زیادہ اجر کے طور پر دیکھتے ہیں۔"
جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق طالبان اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے خواتین کی تعلیم، روزگار اور آزادیٔ اظہار کو اوزار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اگر عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے تو وہ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔