انسانی حقوق کے نگراں ادارے، ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین امدادی کارکنان پر عائد پابندیوں کی بنا پر افغانستان کے زیادہ تر علاقوں کو امداد فراہم نہیں ہو پا رہی ہے، جہاں زندگی بچانے کی ان اشیا کی شدید ضرورت ہے۔
گروپ نے بتایا ہے کہ ملک کے اکثر صوبوں میں خواتین امدادی کارکنون کو تب تک کام کرنے کی اجازت نہیں،جب تک خاندان کا کوئی مرد ان کے ہمراہ نہ ہو۔ ملک کے 34 صوبوں میں سے صرف تین ایسے ہیں جہاں خواتین امدادی کارکنوں کو بغیر کسی شرط کے کام کی اجازت ہے۔
حقوق انسانی کے گروپ نے کہا ہے کہ محرم کی لازمی موجودگی کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کا امدادی کام کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی نگہبان، ہیدر بار نے بتایا کہ ''خواتین امدادی کارکنوں پر طالبان کی عائد سنگین پابندیاں ضرورتمند افغانوں، خاص طور پر خواتین، بچیوں اور خواتین کی سرپرستی والے خاندانوں کو زندگی بچانے کے لیے اشد ضروری اشیا کی فراہمی دشوار ترین کام ہو گیا ہے''۔
ان کے بقول، ''امدادی اداروں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خواتین کو خود اجازت دے سکیں کہ وہ ہمدردی کی نوعیت کی بنیادی امدادی اشیا کو حق داروں تک پہنچا سکیں، لیکن امداد فراہم کرنے کے کام میں سبھی ہو شامل ہونا چاہئے''۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ کام کی صلاحیت رکھنے والی خواتین کو محض صحت اور تعلیم کے شعبہ جات تک محدود کر دیا گیا ہے۔
عام دفاتر کے ماحول میں مرد اور خواتین کو علیحدہ علیحدہ رکھا جاتا ہے، جس کے باعث فیصلوں کے وقت خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
گروپ نے بتایا کہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین امدادی کارکنوں پر لاگو ہونے والے قوائد کبھی تحریر میں نہیں لائے جاتے۔ گروپ نے کہا کہ ''امدادی کام پر مامور خواتین کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے بھی زبانی کلامی ہوتے ہیں، جنھیں ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاتا''۔
ہیدر بار نے کہا کہ ''طالبان کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر مرد و زن امدادی کارکنان کو اجازت دیں، ورنہ شدید ضرورت مند لوگوں کو امداد کی فراہمی بری طرح سے متاثر رہے گی''۔
جب پچھلی بار طالبان اقتدار میں تھے اس وقت محرم کے بغیر خواتین گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں، اور بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں تھیں۔