بھارت میں گزشتہ ہفتے دنیا کی بڑی معیشتوں کے گروپ جی20 کے سربراہی اجلاس سے ماہرین کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی شخصیت کو عالمی رہنما کے طور پر تسلیم کرایا ہے۔
بعض مبصرین کی رائے ہے کہ جی 20 اجلاس میں چند ایک ہی نتائج سامنے آئے ہیں۔ لیکن وزیرِ اعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس اجلاس کو آئندہ برس انتخابات میں کامیابی کی ضمانت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جی20 اجلاس سے قبل بھارت بھر میں بڑے بڑے بورڈز آویزاں کیے گئے تھے جن پر نریندر مودی کی تصاویر نمایاں تھیں۔
مقامی ٹی وی چینلز نے بھی اجلاس کے دوران ہر لمحے کی بھر پور کوریج کی اور نریندر مودی کو عالمی رہنماؤں کے ہمراہ دکھایا۔ ان میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن، برطانیہ کے وزیرِ اعظم رشی سونک، ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر رہنما شامل تھے۔
دوسری جانب بی جے بی نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کیا اور عالمی رہنماؤں کے تہنیتی پیغامات کو شائع کیا۔
اس اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں بین الاقوامی سطح پر قرضوں اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے بنیادی مسائل سے متعلق پیش رفت سامنے آئی۔
یہ بھی پڑھیے
جی 20 اجلاس: 'بائیڈن جو بھارت میں نہ کہہ سکے وہ ویتنام میں کہہ گئے'نئی دہلی میں جی 20 اجلاس ختم، یوکرین میں جنگ پر روس کی مذمت سے گریز جی 20 : چین اور روس کے سربراہوں کی عدم موجودگی، بائیڈن مودی تعلقات مزید مستحکم ہونے کا امکانجی 20 اجلاس: 'چلیں اسی بہانے دہلی کی صفائی ہو گئی'بھارت یا انڈیا؟ وزیرِ اعظم مودی نے ملک کے نام کی بحث پر وزرا کو بیان بازی سے روک دیاچندریان مشن کی کامیابی اور جی 20 اجلاس
مبصرین نریندر مودی کے حوالے سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کو اس لیے بھی سبقت حاصل ہے کیوں کہ گزشتہ ماہ بھارت نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور وہ چاند کے قطب جنوبی پر اس کے مشن چندریان تھری کا پہنچنا ہے۔ اس سے ملک کے تشخص میں بھی بہتری آئی۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نریندر مودی پر تنقید کر رہی ہے کہ وزیرِ اعظم جی20 اجلاس کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
کانگریس کے مطابق نریندر مودی عالمی سطح پر تو خیالات کے تبادلے اور امن کا پرچار کرتے ہیں۔ لیکن بھارت کے اندر ان کی ہندو قوم پرست انتظامیہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے جب کہ مخالفت کرنے والی آوازوں بھی بھی دبایا جا رہا ہے۔
بی جے پی حکومت کانگریس کے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
'مودی کی پوزیشن مستحکم ہوئی'
مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی سیاسی پوزیشن بہت مستحکم ہے اور یہ امکان کم ہے کہ ان کی حکمتِ عملی مؤثر ثابت نہ ہو۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائیٹز‘ سے وابستہ سیاسی مبصر سنجے کمار نے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو پیغام گیا وہ یہ ہے کہ بھارت دنیا میں ایک مضبوط ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان کے بقول اس کی وجہ نریندر مودی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت میں کیے جانے والے عمومی جائزوں میں یہ سامنے آ رہا ہے کہ نریندر مودی آئندہ انتخابات میں بھی آسانی سے کامیابی حاصل کر لیں گے جب کہ افراطِ زر کی بلند شرح، بے روزگاری میں اضافے اور کرونا وبا کے بعد معیشت کی سست بحالی کے باوجود وہ وزارتِ عظمی تیسری بار بھی حاصل کر لیں گے۔
تاہم اس کے ساتھ شمال مشرق میں واقع ریاست منی پور میں ہونے والے نسلی فسادات سے ان کے تشخص پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جشن منانے کی تیاریاں
بی جے پی کے رہنماؤں نے آئندہ اتوار کو نریندر مودی کی سالگرہ کے دن سے جی20 اجلاس کی کامیابی کا جشن منانے کی تیاری شروع کر دی ہیں۔
آئندہ ہفتے بھارت کی پارلیمان کا پانچ روز کا اسپیشل سیشن بھی ہو رہا ہے۔ بی جے پی رہنماؤں کے مطابق پارلیمان کے اس اجلاس میں بھی نریندر مودی کی بھارت کو عالمی سطح پر مقام دلانے کے لیے خدمات کو مرکزی نقطہ بنایا جائے گا۔
اتوار 17 ستمبر کو نریندر مودی 73 برس کے ہو جائیں گے۔ وہ 2014 سے ملک کے وزیرِ اعظم ہیں اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے سابق حکمران جماعت کانگریس پر بد ترین طرزِ حکمرانی اور بد عنوانی کے الزامات عائد کیے تھے۔
انہوں نے 2019 کے عام انتخابات میں معاشی فلاح، ملک کے انفراسٹرکچر کی بہتری اور بے باک ہندو قوم پرستی کے ذریعے زیادہ تعداد میں نشستیں حاصل کرکے کامیابی اپنے نام کی تھی۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔