|
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں اور مقامی پولیس کے درمیان مبینہ لڑائی کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ دونوں اداروں نے حقائق جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پولیس کی جانب سے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں اور ایک فوجی اہلکار کے اہلِ خانہ کے خلاف الگ الگ مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں۔
بہاولنگر کے مقامی صحافی طارق حفیظ کے مطابق اس تنازع کا آغاز آٹھ اپریل کو تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس کی جانب سے ایک فوجی اہلکار محمد خلیل کے گھر پر چھاپے اور اہلِ خانہ کو زدوکوب کرنے سے شروع ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طارق حفیظ نے دعویٰ کیا کہ یہ چھاپہ محمد خلیل کے مخالفین کی ایما پر ڈلوایا گیا جس پر اہلِ علاقہ کی جانب سے بھی مزاحمت کی گئی۔
اُن کے بقول پولیس اہلکاروں پر یہ الزام بھی ہے کہ اُنہوں نے چھاپے کے دوران فوجی اہلکار کے گھر سے قیمتی اشیا اور نقدی بھی اُٹھا لی جس پر اہلِ علاقہ اور گھر کے مردوں نے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا۔
اُن کے بقول اس کے بعد پولیس کی جانب سے فوجی اہلکار اور اس کے اہلِ خانہ پر کارِسرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
مقدمے کے مطابق پولیس معمول کے گشت پر تھی کہ اُنہیں کچھ مشکوک افراد نظر آئے جن کا پیچھے کرنے پر اُنہوں نے محمد خلیل نامی شخص کے گھر پناہ لی۔ پولیس نے محمد خلیل کے گھر چھاپہ مارا اور مشکوک شخص سے اسلحہ برآمد کیا۔ مگر مبینہ مشکوک شخص اسلحے کا کوئی لائسنس پیش نہیں کر سکا۔ اِسی دوران محمد خلیل کے گھر والوں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔
درج کیے گئے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ موقع پر موجود پولیس اے ایس آئی محمد نعیم نے تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او رضوان عباس کو اطلاع دی جس پر رضوان عباس نے اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ چک سرکاری میں محمد انور جٹ کے گھر رفاقت کی گرفتاری کے لیے ریڈ کیا۔ اس پر اہلِ خانہ نے مزاحمت کی اور پولیس اہلکاروں کو دیگر اہلِ محلہ کی مدد سے ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کو کمرے میں بند کر کے یرغمال بنا لیا اور ایس ایچ او رضوان عباس کی ویڈیوز بھی بنائی۔
بعدازاں رضوان عباس نے بذریعہ وائرلیس پولیس کی مزید نفری منگوا لی جس میں ایلیٹ فورس کے اہلکار بھی شامل تھے۔ ایلیٹ فورس نے ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو آزاد کرا لیا اور گھر میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کر لیا۔
پولیس اہلکاروں نے محمد انور جٹ، اس کے بیٹے آرمی ملازم محمد خلیل، دوسرے بیٹے اینٹی نارکوٹکس ملازم محمد ادریس اور دیگر کو گرفتار کر کے 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
طارق حفیظ کے مطابق مذکورہ کارروائی کے بعد فوجی ملازم محمد خلیل نے واقعے کی تمام تفصیلات سے اپنے ادارے کو آگاہ کیا جس پر سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے مبینہ طور پر پہلے تھانہ مدرسہ اور پھر تھانہ سٹی پر دھاوا بول دیا اور پولیس اہلکاروں کو زدوکوب کیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
اعلٰی پولیس حکام کے نوٹس میں آنے کے بعد پولیس نے ریڈ کرنے والے ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے اُنہیں حراست میں لے لیا اور محکمہ جاتی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔
ایف آئی آر نئے تعینات ہونے والے ایس ایچ او سیف اللہ حنیف کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر فرائض میں غفلت برتنے اور غیر قانونی حراست میں رکھنے کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ نے واقعے سے متعلق ڈسٹرکٹ پولیس افسر نصیب اللہ خان سے رابطہ کیا مگر وہ دستیاب نہیں ہو سکے، تاہم ترجمان بہاولنگر پولیس زاہد رسول کے مطابق ڈی پی او نے واقعے میں ملوث ایس ایچ او اور دیگر اہلکاروں کو معطل کر کے محکمانہ کاروائی کا حکم دیا ہے۔
زاہد رسول کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اِس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اُن کے بقول دونوں اطراف کے حکام نے معاملے کو سلجھا دیا ہے۔
طارق حفیظ کے مطابق پولیس اور فوجی حکام نے پولیس اور فوجی اہلکاروں کے درمیان صلح کرا دی ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں چند پولیس اہلکار اپنے اوپر ہونے والے مبینہ تشدد بارے بتا رہے ہیں۔ مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں میں سے ایک اہل کار کے مطابق کچھ سادہ کپڑوں اور چہرہ ڈھانپے افراد نے ان کے تھانے پر دھاوا بولا اور اُس سمیت دیگر پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا۔
سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آر پی او بہاولپور رائے بابر اور فوجی وردی میں ملبوس ایک بریگیڈیئر رینک کا افسر نعرے لگا رہے ہیں۔ ویڈیو میں فوجی اہلکار اور پولیس اہکار بغل گیر ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔
'یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید فوج اور پولیس کے درمیان محاذ آرائی ہوئی'
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ان ویڈیوز کو غلط رنگ دے کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید پولیس اور فوج کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہوئی ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں اداروں کی جانب سے ان ویڈیوز کے جائزے کے بعد مشترکہ تحقیقات کی گئیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حقائق کا جائزہ لینے کے بعد معاملے کو پرامن طور پر حل کر لیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس اور فوج مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لہذٰا سوشل میڈیا صارفین سے درخواست ہے کہ وہ بھی کسی جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔
پی ٹی آئی کا تحقیقات کا مطالبہ
پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جاری بیان میں واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ معاملے کی پردہ پوشی کے بجائے حقائق سامنے لانا ضروری ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولنگر واقعہ ملک میں مروجہ لاقانونیت اور حکومتی و ریاستی صفوں میں گہرائی تک جنم لینے والے بگاڑ کی بدترین علامت ہے۔
بیان کے مطابق پچھلے دو برس کے دوران ریاستی سطح پر دستور و قانون کو دفن کر کے لاقانونیت کو فروغ دیا گیا اور ایک مخصوص گروہ کو قانون سے ماورا مخلوق کا درجہ دیا گیا ہے۔