انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے میانمار کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ انتظامیہ روہنگیا مسلمانوں کو جبری طور پر ایسے شناختی کارڈ قبول کرنے پر مجبور کر رہی ہے جس کے تحت وہ میانمار کی شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق میانمار میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے ایک گروپ نے الزام لگایا ہے کہ حکومت روہنگیا کی مسلمان اقلیت کو زبردستی نیشنل ویری فکیشن کارڈز (این وی سی) قبول کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ان کارڈز میں روہنگیا افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کو خدشہ ہے کہ یہ کارڈز روہنگیا افراد سے میانمار کی شہریت چھین لیں گے۔
تنظیم کے مطابق میانمار کے حکام روہنگیا افراد پر تشدّد کر رہے ہیں اور ان کی آزادی کو مختلف پابندیوں سے سلب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، تاکہ وہ این وی سی کارڈز کو قبول کر لیں۔
تنظیم کے چیف ایگزیکیٹو میتھیو اسمتھ نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا افراد کو انتظامی طریقے سے تباہ کرنا چاہتی ہے۔ جو ان کے بنیادی حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔
ان الزامات سے متعلق میانمار کی حکومت کے ترجمان کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ البتہ فوج کے ترجمان میجر جنرل ٹون نیائی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کے بقول، کسی بھی شخص کو تشدد یا گن پوائنٹ پر کوئی ایسا کارڈ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا افراد کی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ روہنگیا افراد غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں جو بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے میانمار آئے ہیں۔
دوسری جانب روہنگیا افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کئی نسلوں سے میانمار کی ریاست رخائن میں رہائش پذیر ہیں۔
میانمار کی ریاست رخائن اس وقت دنیا کی توجّہ کا مرکز بنی تھی جب 2017 میں تقریباً سات لاکھ 30 ہزار روہنگیا مسلمانوں نے میانمار کی فوج کی جانب سے کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی۔
خیال رہے کہ ایسے کارڈز جاری کرنے سے بنگلہ دیش میں پناہ گزین میانمار کے شہریوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
بیشتر پناہ گزین بنگلہ دیش سے اسی لیے واپس آنا نہیں چاہتے کہ انہیں شہریت چھین لیے جانے کا ڈر ہے۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ جب تک انہیں میانمار کی شہریت ملنے کی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی وہ واپس نہیں جائیں گے۔
گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے حقائق تلاش کرنے والے مشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2017 میں رخائن میں فوجی مہم کا آغاز نسل کشی کے ارادے سے کیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ نے اس مہم کا ذمّہ دار فوج کے سربراہ مِن آنگ لائی اور پانچ دیگر جرنیلوں کو قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عالمی قوانین کے تحت مقدمات قائم کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
میانمار کے حکام نسل کشی سے متعلق ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ البتہ، من آنگ لائی نے گزشتہ ماہ اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ فوج کے کچھ افراد اس کام میں ملوث تھے۔