(ویب ڈیسک) انسانی حقوق کے ایک گروپ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ ایران میں 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں کم از کم 354 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔ گروپ نے مزید کہا کہ 2022 کے مقابلے میں پھانسیوں پر عمل درآمد کی رفتار بہت زیادہ تھی۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے تہران پر الزام لگایا ہے کہ وہ معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے سزائے موت کا استعمال کر رہا ہےجسے اس احتجاجی تحریک کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جو گزشتہ ستمبر میں ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوئی تھی ۔
سزائے موت میں36 فیصد اضافہ
ناروے میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس یعنی آئی ایچ آر نے کہا ہےکہ اس سال 30 جون تک سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد تین سو چون (354)ہے جو 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں چھتیس فیصد زیادہ ہے۔اس وقت یہ تعداد دو سو اکسٹھ تھی ۔
گروپ نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں غیر فارسی نسلی گروہ پھانسیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ گروپ کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا پانے والوں میں سے بیس فیصدکا تعلق سنی بلوچ اقلیت سے ہے۔گروپ نے بتایا ہے کہ دو سو چھ افراد کو منشیات سے متعلق الزامات میں سزائے موت دی گئی جس میں گزشتہ سال اسی مدت کے مقابلے میں ایک سو چھبیس فیصد اضافہ ہوا۔
آئی ایچ آر نے مزید بتایا ہے کہ اس عرصے کے دوران چھ خواتین کو بھی سزائے موت دی گئی جبکہ دو مردوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی۔
آ ئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے کہا کہ ’’ سزائے موت کا استعمال سماجی سطح پر خوف پیدا کرنے اور مزید مظاہروں کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت پرمنشیات کے حوالے سے الزامات ہیں جن کا تعلق انتہائی پسماندہ کمیونٹیز سے ہے۔‘‘
آئی ایچ آر نے اس سال کے شروع میں اطلاع دی تھی کہ ایران میں 2022 میں پانچ سو بیاسی افراد کو پھانسی دی گئی جو 2015 کے بعد اسلامی جمہوریہ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران سزائے موت کے حوالے سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس کے بارے میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
ایرانی حکام نے مظاہروں سے متعلق معاملات کے سلسلے میں سات افراد کو پھانسی دی ہے۔حقوق سے متعلق گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے کم از کم سات مزید افراد کو پھانسی کا خطرہ ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیاہے۔