برما کی راکھین ریاست میں روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت قرار دے چکی ہے۔
واشنگٹن —
انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے برما کی سکیورٹی فورسز پر گزشتہ ہفتے ملک کی مغربی ریاست اراکان میں عورتوں اور بچوں سمیت لگ بھگ 40 مسلمانوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ برمی حکومت نے اس نئے الزام کی تردید کی ہے۔
بینکاک میں قائم تنظیم 'فورٹیفائی رائٹس' نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عینی شاہدین اور دیگر معتبر ذرائع سے قتلِ عام کی تصدیق ہوگئی ہے جس کا نشانہ برما میں اقلیتی روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان بنے ہیں۔
تنظیم کے مطابق واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے لیکن برمی حکومت کی جانب سے علاقے تک صحافیوں کی رسائی پر عائد پابندیوں کے باعث درست اطلاعات باہر نہیں آرہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اگر ہلاکتوں کا یہ الزام درست ثابت ہوا تو اکتوبر 2012ء میں بدھ اکثریت کے ہاتھوں مسلمان اقلیت کے خلاف پرتشدد حملوں کے بعد اراکان میں پیش آنے والا اب تک کا یہ سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہوگا۔
اراکان – جس کا نام برمی حکومت نے بدل کر راکھین کر دیا ہے – کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے قتل کا ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کےساتھ گفتگو کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد حکام نے علاقے کا دورہ کیا ہے اور انہیں وہاں اس طرح کے قتلِ عام کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
برما کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھی جمعرات کو ان الزامات کی تردید پر مشتمل حکومت کے بیانات شائع کیے ہیں۔
قتلِ عام کی اس واردات کے متعلق الزامات پہلے پہل 'منگڈاؤ' نامی قصبے میں 13 جنوری کو پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروہ کے درمیان ہونے والی مبینہ جھڑپ کے بعد سامنے آئے تھے۔
صحافیوں کو مذکورہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں امدادی اداروں کو بھی کڑی سرکاری نگرانی میں اپنی سرگرمیاں انجام دینا پڑتی ہیں۔
کاروائی کے چند روز بعد برما کی وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ علاقے میں پولیس پر حملہ کیا گیا تھا جس کے جواب میں کاروائی کی گئی۔
تاہم ترجمان نے اقوامِ متحدہ اور برما میں قائم امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کاروائی میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
'رائٹرز' نے بعض مقامی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ 13 جنوری کی رات علاقے میں آٹھ روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروہ کا پولیس پارٹی کے ساتھ تصادم ہوا تھا جس میں ایک پولیس افسر اور دو یا تین مسلمان ہلاک ہوگئے تھے جب کہ دیگر نے ایک نزدیکی گاؤں میں پناہ لے لی تھی۔
'رائٹرز' کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ تصادم کے بعد برما کی سکیورٹی فورسز نے گاؤں کو گھیر لیا تھا اور علاقے کے بدھ باشندوں کو ساتھ ملا کر عورتوں اور بچوں سمیت لگ بھگ 70 مسلمان قتل کردیے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کاروائی کے بعد متاثرہ گاؤں ویران پڑا ہے اور زندہ بچ جانے والے دیہاتیوں میں سے زیادہ تر کو یا تو حراست میں لے لیا گیا ہے یا وہ لاپتہ ہیں۔
'فورٹیفائی رائٹس' نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کر رہی ہے جس کے نتیجے میں، تنظیم کے مطابق، علاقے کے لوگوں کے انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔
برما کی راکھین ریاست میں روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت قرار دے چکی ہے۔
برما کی حکومت ان مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور عالمی اداروں کے مطابق ان لاکھوں مسلمانوں کو جبری مشقت، زمینوں پر قبضے اور سفری پابندیوں کا سامنا ہے جب کہ انہیں روزگار، صحت اور تعلیم کے مواقع بھی دستیاب نہیں۔
بینکاک میں قائم تنظیم 'فورٹیفائی رائٹس' نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عینی شاہدین اور دیگر معتبر ذرائع سے قتلِ عام کی تصدیق ہوگئی ہے جس کا نشانہ برما میں اقلیتی روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان بنے ہیں۔
تنظیم کے مطابق واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے لیکن برمی حکومت کی جانب سے علاقے تک صحافیوں کی رسائی پر عائد پابندیوں کے باعث درست اطلاعات باہر نہیں آرہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اگر ہلاکتوں کا یہ الزام درست ثابت ہوا تو اکتوبر 2012ء میں بدھ اکثریت کے ہاتھوں مسلمان اقلیت کے خلاف پرتشدد حملوں کے بعد اراکان میں پیش آنے والا اب تک کا یہ سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہوگا۔
اراکان – جس کا نام برمی حکومت نے بدل کر راکھین کر دیا ہے – کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے قتل کا ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کےساتھ گفتگو کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد حکام نے علاقے کا دورہ کیا ہے اور انہیں وہاں اس طرح کے قتلِ عام کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
برما کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھی جمعرات کو ان الزامات کی تردید پر مشتمل حکومت کے بیانات شائع کیے ہیں۔
قتلِ عام کی اس واردات کے متعلق الزامات پہلے پہل 'منگڈاؤ' نامی قصبے میں 13 جنوری کو پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروہ کے درمیان ہونے والی مبینہ جھڑپ کے بعد سامنے آئے تھے۔
صحافیوں کو مذکورہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں امدادی اداروں کو بھی کڑی سرکاری نگرانی میں اپنی سرگرمیاں انجام دینا پڑتی ہیں۔
کاروائی کے چند روز بعد برما کی وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ علاقے میں پولیس پر حملہ کیا گیا تھا جس کے جواب میں کاروائی کی گئی۔
تاہم ترجمان نے اقوامِ متحدہ اور برما میں قائم امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کاروائی میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
'رائٹرز' نے بعض مقامی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ 13 جنوری کی رات علاقے میں آٹھ روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروہ کا پولیس پارٹی کے ساتھ تصادم ہوا تھا جس میں ایک پولیس افسر اور دو یا تین مسلمان ہلاک ہوگئے تھے جب کہ دیگر نے ایک نزدیکی گاؤں میں پناہ لے لی تھی۔
'رائٹرز' کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ تصادم کے بعد برما کی سکیورٹی فورسز نے گاؤں کو گھیر لیا تھا اور علاقے کے بدھ باشندوں کو ساتھ ملا کر عورتوں اور بچوں سمیت لگ بھگ 70 مسلمان قتل کردیے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کاروائی کے بعد متاثرہ گاؤں ویران پڑا ہے اور زندہ بچ جانے والے دیہاتیوں میں سے زیادہ تر کو یا تو حراست میں لے لیا گیا ہے یا وہ لاپتہ ہیں۔
'فورٹیفائی رائٹس' نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کر رہی ہے جس کے نتیجے میں، تنظیم کے مطابق، علاقے کے لوگوں کے انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔
برما کی راکھین ریاست میں روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت قرار دے چکی ہے۔
برما کی حکومت ان مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور عالمی اداروں کے مطابق ان لاکھوں مسلمانوں کو جبری مشقت، زمینوں پر قبضے اور سفری پابندیوں کا سامنا ہے جب کہ انہیں روزگار، صحت اور تعلیم کے مواقع بھی دستیاب نہیں۔