واشنگٹن —
اسلامی ملکوں کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ایک نمائندہ وفد برما پہنچا، جس موقعے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
وفد میں سعودی عرب، مصر، ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور جبوتی کے وزراٴ شامل ہیں۔
بدھ کے روز برما پہنچنے والے اِس وفد کے دورے کا مقصد ملک کی مسلمان اقلیت کے حالات کا تخمینہ لگانا ہے، جسے ملک کی مغربی ریاستِ راکھین میں بدھوں کے ساتھ جھڑپیں درپیش رہی ہیں۔
سینکڑوں بودھ، جِن میں درجنوں راہب شامل تھے، رنگون ہوائی اڈے کے باہر احتجاج کیا، اور ’او آئی سی‘ پر ملک کی اقلیتی مسلمان برادری کے حق میں تعصب برتنے کا الزام لگایا۔ احتجاجی مظاہرہ پُرامن رہا۔
برما کے صدر، تھائین سین کے ترجمان، یی توت نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ وفد کا دھیان محدود ایجنڈے تک ہی مرتکز رہے گا۔
ترجمان کے بقول، ’جیسا کہ خبروں میں بتایا گیا ہے، اس دورے کا مقصد برما میں ’او آئی سی‘ کا دفتر کھولنا نہیں، نہی ’روہنگیا‘ نام تلے بنگالیوں کی ایک نسلی قومیت کو تسلیم کرنا ہے۔ ہم نے اُن کے دورے کا بندوبست محض اس لیے کیا ہے کہ وفد راکھین ریاست میں حالات کا معائنہ کرکے امن، استحکام اور تعمیرِ نو کی صورتِ حال ملاحظہ کرے‘۔
ترجمان راکھین کی ریاست میں مسلمانوں کے نام پر جاری تنازع کی طرف ذہن مبذول کرا رہے تھے۔ بقول اُن کے، حکومت اُنھیں اِس لیے’بنگالی‘ کے نام سے پکارتی ہے، کیونکہ کئی نسل قبل وہ ہمسایہ بنگلہ دیش سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ لیکن، مقامی مسلمان روہنگیا کے مخصوص اقلیتی نام سے شناخت کے حق میں ہیں‘۔
گذشتہ برس مسلمان اور بودھوں کے درمیان تشدد کے واقعات میں کم از کم 200افراد ہلاک، جب کہ ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے، جِن میں زیادہ تر کا تعلق روہنگیا اقلیتی برادری سے ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ جمعرات کو تنظیم کا وفد برما کے اہل کاروں سے ملاقات کرے گا۔ تاہم، وہ صدر تھائین سین کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ ’او آئی سی‘ نے گذشتہ ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُس کا وفد برما کی حزب ٕمخالف کی راہنما، آن سان سوچی سے ملے گا۔ تاہم، اُن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ کا کہنا ہے کہ اِس طرح کی کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔
وفد میں سعودی عرب، مصر، ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور جبوتی کے وزراٴ شامل ہیں۔
بدھ کے روز برما پہنچنے والے اِس وفد کے دورے کا مقصد ملک کی مسلمان اقلیت کے حالات کا تخمینہ لگانا ہے، جسے ملک کی مغربی ریاستِ راکھین میں بدھوں کے ساتھ جھڑپیں درپیش رہی ہیں۔
سینکڑوں بودھ، جِن میں درجنوں راہب شامل تھے، رنگون ہوائی اڈے کے باہر احتجاج کیا، اور ’او آئی سی‘ پر ملک کی اقلیتی مسلمان برادری کے حق میں تعصب برتنے کا الزام لگایا۔ احتجاجی مظاہرہ پُرامن رہا۔
برما کے صدر، تھائین سین کے ترجمان، یی توت نے ’وائس آف امریکہ‘ کی برمی سروس کو بتایا کہ وفد کا دھیان محدود ایجنڈے تک ہی مرتکز رہے گا۔
ترجمان کے بقول، ’جیسا کہ خبروں میں بتایا گیا ہے، اس دورے کا مقصد برما میں ’او آئی سی‘ کا دفتر کھولنا نہیں، نہی ’روہنگیا‘ نام تلے بنگالیوں کی ایک نسلی قومیت کو تسلیم کرنا ہے۔ ہم نے اُن کے دورے کا بندوبست محض اس لیے کیا ہے کہ وفد راکھین ریاست میں حالات کا معائنہ کرکے امن، استحکام اور تعمیرِ نو کی صورتِ حال ملاحظہ کرے‘۔
ترجمان راکھین کی ریاست میں مسلمانوں کے نام پر جاری تنازع کی طرف ذہن مبذول کرا رہے تھے۔ بقول اُن کے، حکومت اُنھیں اِس لیے’بنگالی‘ کے نام سے پکارتی ہے، کیونکہ کئی نسل قبل وہ ہمسایہ بنگلہ دیش سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ لیکن، مقامی مسلمان روہنگیا کے مخصوص اقلیتی نام سے شناخت کے حق میں ہیں‘۔
گذشتہ برس مسلمان اور بودھوں کے درمیان تشدد کے واقعات میں کم از کم 200افراد ہلاک، جب کہ ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے، جِن میں زیادہ تر کا تعلق روہنگیا اقلیتی برادری سے ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ جمعرات کو تنظیم کا وفد برما کے اہل کاروں سے ملاقات کرے گا۔ تاہم، وہ صدر تھائین سین کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ ’او آئی سی‘ نے گذشتہ ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُس کا وفد برما کی حزب ٕمخالف کی راہنما، آن سان سوچی سے ملے گا۔ تاہم، اُن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی‘ کا کہنا ہے کہ اِس طرح کی کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔