کاؤ شُنلی 14 ستمبر سے منظرِ عام پر نہیں آئیں جب اطلاعات کے مطابق اُنھیں دارالحکومت بیجنگ کے ہوائی اڈے پر حراست میں لے کر اُس سے تفتیش کی گئی تھی۔
حقوقِ انسانی کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے چین سے اُس خاتون کارکن کو رہا کرنے کی درخواست کی ہے جو ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق اقوامِ متحدہ کے جائزے میں شریک ہونے کی کوشش کے دوران ’’جبری گمشدگی‘‘ کا شکار ہوئیں۔
کاؤ شُنلی 14 ستمبر سے منظرِ عام پر نہیں آئیں جب اطلاعات کے مطابق اُنھیں دارالحکومت بیجنگ کے ہوائی اڈے پر حراست میں لے کر اُس سے تفتیش کی گئی تھی۔
وہ چین سے تعلق رکھنے والے اُن کارکنان میں شامل ہیں جنھیں عالمی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق ورک شاپ میں شرکت کے لیے جنیوا جانے سے روکا گیا۔
یہ کارکنان اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے سامنے پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کی تیاری میں چین کی حکومت کی مدد کرنے کے خوہاں تھے۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کا یہ ادارہ چین میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے، اور یہ عمل ہر چار برس بعد تمام ممالک کے بارے میں دہرایا جاتا ہے۔
کونسل کے قوائد کے مطابق تمام ممالک کو رپورٹس کی تیاری میں عوامی رائے کو شامل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بیجنگ کا موقف ہے کہ اس نے وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ کے ذریعے ’’وسیع عوامی حمایت‘‘ حاصل کرکے ضروری شرائط پوری کی ہیں۔
مگر ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے ’’ان جائزوں میں شرکت کے خواہاں کارکنوں پر منصوبہ بندی کے تحت دباؤ‘‘ قوائد کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ عمل ’’اقوام متحدہ کی جانب سے حقوقِ انسانی کے جائزے سے متعلق عمل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے‘‘۔
تنظیم نے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ یہ اقدامات حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بڑی کارروائی کا حصہ ہے۔ تنظیم کے مطابق فروری کے بعد سے کم از کم 56 کارکنوں کو جبراً قید کیا گیا، ناقدین اور انٹرنیٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والی نمایاں شخصیات کو حراست میں لیا گیا، اور سوشل میڈیا، انٹرنیٹ پر اظہار خیال اور عوامی فعال پذیری پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی اس جیسی دیگر خلاف ورزیوں کے بعد چین کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
بیجنگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ نومبر میں کونسل کی 47 نشستوں کے لیے انتخاب میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہے۔
کاؤ شُنلی 14 ستمبر سے منظرِ عام پر نہیں آئیں جب اطلاعات کے مطابق اُنھیں دارالحکومت بیجنگ کے ہوائی اڈے پر حراست میں لے کر اُس سے تفتیش کی گئی تھی۔
وہ چین سے تعلق رکھنے والے اُن کارکنان میں شامل ہیں جنھیں عالمی سطح پر انسانی حقوق سے متعلق ورک شاپ میں شرکت کے لیے جنیوا جانے سے روکا گیا۔
یہ کارکنان اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے سامنے پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کی تیاری میں چین کی حکومت کی مدد کرنے کے خوہاں تھے۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کا یہ ادارہ چین میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے، اور یہ عمل ہر چار برس بعد تمام ممالک کے بارے میں دہرایا جاتا ہے۔
کونسل کے قوائد کے مطابق تمام ممالک کو رپورٹس کی تیاری میں عوامی رائے کو شامل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بیجنگ کا موقف ہے کہ اس نے وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ کے ذریعے ’’وسیع عوامی حمایت‘‘ حاصل کرکے ضروری شرائط پوری کی ہیں۔
مگر ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے ’’ان جائزوں میں شرکت کے خواہاں کارکنوں پر منصوبہ بندی کے تحت دباؤ‘‘ قوائد کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ عمل ’’اقوام متحدہ کی جانب سے حقوقِ انسانی کے جائزے سے متعلق عمل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے‘‘۔
تنظیم نے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ یہ اقدامات حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بڑی کارروائی کا حصہ ہے۔ تنظیم کے مطابق فروری کے بعد سے کم از کم 56 کارکنوں کو جبراً قید کیا گیا، ناقدین اور انٹرنیٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والی نمایاں شخصیات کو حراست میں لیا گیا، اور سوشل میڈیا، انٹرنیٹ پر اظہار خیال اور عوامی فعال پذیری پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی اس جیسی دیگر خلاف ورزیوں کے بعد چین کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
بیجنگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ نومبر میں کونسل کی 47 نشستوں کے لیے انتخاب میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہے۔