اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرحِ سود میں یکمشت 100 بیسز پوائنٹس کے اضافے کو کئی معاشی ماہرین حیران کُن قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں ملکی معیشت پر اس اقدام کے منفی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جمعے کو ہونے والے اضافے کے بعد ملک میں اب شرحِ سُود بڑھ کر 16 فی صد ہوچکی ہے۔ اس سے قبل1998 میں تاریخی اضافے کے بعد یہ شرح 16.5 فی صد ہوگئی تھی۔اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ شرح سُود بڑھانے کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے جو بجٹ اور ابتدائی تخمینوں سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق معاشی سست روی کے اس دور میں عالمی اور ملکی سطح پر اشیائے ضروریہ اور دیگر مصنوعات کی رسد متاثر ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں توقعات سے زائد اضافے کی وجہ سے ترقی کی شرح مزید متاثر ہوسکتی ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی ( ایم پی سی ) کے مطابق اکتوبر میں عمومی مہنگائی بڑھنے، سیلاب سے فصلوں کو نقصان اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مجموعی طور پر مہنگائی کی سطح بُلند ہوئی ہے۔ جبکہ درآمدات میں کمی سے جاری کھاتوں (کرنٹ اکاونٹ) خسارے میں کسی حد تک کمی دیکھی گئی لیکن اس کے باوجود بیرونی کھاتوں (ایکسٹرنل اکاونٹس) کی دشواریاں برقرار ہیں۔
ایم پی سی کے مطابق سیلاب کے نقصانات کے جائزےکی روشنی میں سالانہ شرح نمو محض دو فی صد اور جاری کھاتوں کا خسارہ تین فی صد ہونے کے بعد اب اوسط مہنگائی بھی 21 سے 23 فی صد تک رہنے کی توقع ہے۔
"کاروبار مزید سکڑے گا، بے روزگاری بڑھے گی"
کئی تجزیہ کاروں نے اسٹیٹ بینک کے شرحِ سود میں اضافے کے فیصلے کو ملک میں پہلے سے سُست معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے مزید تباہ کن قرار دیا ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہریار بٹ نے کہا کہ اس فیصلے کے اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں پیر کو زبردست مندی سے بہت حد تک جھلک رہے ہیں جہاں ایک ہی روز میں 865 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھنے میں آئی اور سرمایہ کاروں نے خریداری کے بجائے حصص بیچنے کو ترجیح دی۔
SEE ALSO: پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب کبھی نہیں جائے گا: وزیرِ خزانہ اسحاق ڈاران کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے کاروبار مزید سکڑ جائیں گے جس کی وجہ سے بالآخر بے روزگاری بڑھے گی۔ دوسری جانب حکومت کو مقامی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے قرضے لینے کی صورت میں بھاری سُود بھی ادا کرنا ہوگا۔ بینکس اپنی لیکویڈیٹی محفوظ سرکاری خزانے میں رکھ کر زیادہ منافع حاصل کریں گے۔
" کھپت کی حوصلہ شکنی کے لیے شرحِ سود میں اضافہ ضروری تھا"
مالیاتی شعبے سے جُڑے ایک اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک کی منطق بڑی سادہ ہے۔ پاکستانی معیشت کا تقریباً 90 فی صد انحصار کھپت پر ہے جب کہ کم شرح سود کھپت کی حوصلہ افزائی کرنے کا موجب ہوتی ہے اور بچت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔
سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بیرونی ادائیگیوں میں توازن نازک سطح پر ہو تو زیادہ شرح سود درآمدات کو روکنے اور کھپت کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گی۔
"شرح سود بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا"
معاشی ماہر اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا بھی خیال ہے کہ شرح سود میں اضافے کا فیصلہ غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پالیسی ریٹ میں اضافہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا کیوں کہ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کا سبب براہ راست منی سپلائی سے نہیں۔ بلکہ اس سے الٹا نقصان یہ ہوگا کہ صنعتوں کو توسیع دینے کا عمل متاثر ہوگا جس کا اثر بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے یہ تصور کرکے شرح سود بڑھائی ہے کہ اس سے روپے کو کسی حد تک استحکام ملے گا۔ لیکن یہ کتابی باتیں ہیں۔ ان کے خیال میں اگر ملک میں شرح سود 50 فی صد بھی کردی جائے تو بھی روپے کو اس حکمتِ عملی کے ساتھ مستحکم نہیں کیا جاسکتا۔
SEE ALSO: جلسے، احتجاج اور اداروں پر تنقید: عمران خان نے کیا کھویا کیا پایا؟استحکام کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اگرحکومت مہنگائی پر قابو پانا چاہتی ہے اور روپے کی قدر میں استحکام کی خواہاں ہے تو اس کے لیے ضروری ہےکہ وہ اپنے بجٹ خسارے پر قابو پائے۔ یعنی حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو کاروباری اداروں کا خسارہ قابو میں کرنا ہوگا۔ اسی طرح بیرونی ادائیگیوں میں توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ یعنی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں اضافے کو روکنا ہوگا۔ ان کے بقول، تبھی روپے کی گرتی ہوئی قدر کو قابو میں رکھ کر مہنگائی کو لگام دی جاسکتی ہے۔