سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

پانامہ سٹی میں سمندر سے نکالنے والے پلاسٹک کے کچرے کی ایک تصویر۔ فائل فوٹو

گزشتہ 15 برسوں میں دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی ایک ایسی سطح تک پہنچ گئی ہے جس کی اس سے قبل کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک نئی تحقیق میں پلاسٹک کے نقصان دہ کوڑے پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی پوری دنیا کے لیے ایک مستقل مسئلہ ہے -سمندری جاندار پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں جیسے مچھلی پکڑنے کے جالوں میں پھنس سکتے ہیں، یا پلاسٹک کے انتہائی باریک ٹکڑے، جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے، کھا سکتے ہیں جو انجام کار انسانوں کی خوراک کھانے کے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بدھ کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آج دنیا کے سمندروں کی سطح پر پلاسٹک کے 170 ٹریلین ٹکڑے، خاص طور پر مائیکرو پلاسٹکس موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہیں 2005 سے سمندورں میں پھیکنا شروع کر دیا گیا تھا۔

اوپن ایکسیس جریدے PLOS One میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’’پچھلے 15 برسوں کے دوران دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔‘‘

یہ مقدار پچھلے تخمینوں سے زیادہ ہے اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو آنے والے عشروں میں سمندروں میں پلاسٹک کا فضلہ اکھٹا ہونے کی شرح کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

زمبابوے کی شہر ابیدجان میں سمندر سے پلاسٹک کے نکالے جانے والے کچرے کی ایک تصویر۔ 22 جولائی 2022

محققین نے 1979 اور 2019 کے درمیان 40 سال کی مدت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دنیا بھر میں گیارہ ہزار مختلف مقامات سے پلاسٹک کے نمونے لیے۔

انہیں 1990 تک سمندروں میں پلاسٹک پھینکے جانے کے رجحان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ، لیکن پھر 1990 اور 2005 کے درمیان اس رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور اس کے بعد سمندروں میں ان کی تعداد آسمان کو چھونے لگے۔

اس تحقیق کی مصنفہ لیزا ایرڈل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’ہم 2005 کے بعد سے اس میں واقعی تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ پلاسٹک کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ان پالیسیوں کی تعداد بہت کم رہی جو سمندر میں پلاسٹک پھینکے جانے کو کنٹرول کر تی ہیں۔‘‘

سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی پھیلانے کے ان گنت ذرائع ہیں

مثال کے طور پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والے جال اور دوسرا سامان ناکارہ ہونے پر انہیں اکثر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے یا وہ حادثاتی طور پر گر جاتے ہیں۔ اسی طرح کپڑے، گاڑیوں کے ٹائر اور ایک بار استعمال کی پلاسٹک کی چیزیں اکثر ساحلی علاقوں کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

منیلا میں سمندر سے نکالا جانے والا پلاسٹک کا کچرا ایک ٹرک میں لادا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو

انجام کار یہ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

زہریلی مصنوعات کی بہتات

اکانومسٹ امپیکٹ اور دی نپون فاؤنڈیشن کی مشترکہ طور پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق، پلاسٹک کے استعمال کے موجودہ رجحانات کے پیش نظر ترقی یافتہ جی 20 ممالک میں 2019 سے 2050 تک پلاسٹک کا استعمال تقریباً دوگنا ہو کر سالانہ 451 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔

1950 میں دنیا بھر میں صرف 20 لاکھ ٹن پلاسٹک تیار ہوا تھا۔

حتی کہ ان ممالک میں جہاں کوڑا کرکٹ کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا جدید نظام موجود ہے، وہاں بھی پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے اور پلاسٹک کے فضلے کی انتہائی معمولی مقدار کو ری سائیکل کیا جاتا ہے جب کہ اس کے بہت بڑے حصے کو زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

اگر اسے زمین میں دبانے کا بندوبست مناسب طریقے سے نہ کیا گیا ہو تو پلاسٹک کا فضلہ ماحول کو آلودہ کرنے لگتا ہے اور پانی میں شامل ہو کر آخرکار سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔

ایزڈل کا کہنا ہے کہ ری سائیکلنگ میں کمی کی وجہ سے ہمیں زہریلی مصنوعات اور ان کی پیکنگ کے فضلے کے انبار نظر آتے ہیں۔

1990 اور 2005 کے دوران بعض مقامات پر پلاسٹک کے فضلے کی شرح میں کمی دیکھی گئی، کیونکہ وہاں آلودگی پر قابو پانے کے لیے کچھ موثر پالیسیاں موجود تھیں۔

سری لنکا میں سمندر سے پلاسٹک کا کچرا نکال کر اسے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو

اس میں 1988 کا مارپول معاہدہ بھی شامل ہے، جو 154 ممالک کو بحری اور ماہی گیری کے مقاصد کے لیے جہاز رانی کو پلاسٹک کے فضلے کو سمندر میں ضائع نہ کرنے کا قانونی طور پر پابند کرتا ہے۔

پلاسٹک کے فضلے پر کنٹرول کے لیے عالمی معاہدوں کی ضرورت

مصنفہ کا کہنا ہے کہ آج جب کہ پلاسٹک کی پیداوار بہت بڑھ گئی ہے، اسے گھٹانے، اس کا استعمال کم کرنے اور اسے ٹھکانے لگانے کے بہتر انتظام کے لیے ایک نئے اور وسیع تر معاہدے کی ضرورت ہے۔

پچھلے سال، 175 ممالک نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا جسے اگلے سال ایک حتمی قانونی شکل دی جا سکتی ہے۔

پی ایل او ایس کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ آج سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی کے کل وزن کا اندازہ 23 لاکھ ٹن لگایا گیا ہے۔

اس مطالعے میں شمالی بحر اوقیانوس، جنوبی بحر اوقیانوس، شمالی بحر الکاہل، جنوبی بحرالکاہل، بحر ہند اور بحیرہ روم کے سمندروں میں نمونوں کی جانچ کی۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)