پاکستان کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں نو مبینہ دہشت گرد ہلاک ہو گئے ہیں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان کے ضلع دتہ خیل میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انٹیلی جنس معلومات پر مبنی آپریشن میں فائرنگ کے تبادلے میں چھ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
حکام کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں مزید تین دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں افغانستان کے سرحدی علاقوں سے ملحقہ تحصیل دتہ خیل اور دیگان میں کی گئی ہیں۔ حکام کے بقول "ہلاک دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں جدید خودکار اسلحہ اور گولہ بارود ملا ہے۔''
دوسری جانب کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستا ن(ٹی ٹی پی) یا کسی دیگر گروہ کا سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
ادھر بدھ کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں مبینہ عسکریت پسندوں نے مردم شماری کرنے والے عملے کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔ ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں پولیس اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایک اور واقعے میں نامعلوم شرپسندوں نے شمالی وزیرستان کے قصبے میر علی میں ایک زیر تعمیر پولیس چوکی کو آگ لگادی۔
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں حالیہ کچھ عرصے میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات بالخصوص پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے خلاف عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں تیز ی آئی ہے۔
رواں ہفتے ہی خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات گنڈ پور نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ صوبے میں اس وقت دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں 2008 اور 2009 جیسی صورتِِ حال پیدا ہو ئی ہے جس سے نمٹنے کے لیےجد ید ٹیکنالوجی کے استعمال کے اقدامات کیےجا ر ہے ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس رپورٹ کے مطابق سال2022 میں پولیس پر ہونے والے 159 واقعات میں 119 اہلکار ہلاک اور 121 زخمی ہوئےتھے جبکہ رواں سال جنوری میں ہونےوالے 15 پر تشدد حملوں میں 115 پولیس اہلکار ہلاک اور 189 زخمی ہوئے ہیں جن میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر 30جنوری کو ہونے والا خودکش حملہ بھی شامل ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار گوہر علی خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکام نے دو دہائیوں کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف متعدد سیکیورٹی آپریشنز اور کارروائیاں کی ہیں ۔
گوہر خان کہتے ہیں کہ ان کارروائیوں کی کامیابی کے بارے میں بہت دعوے بھی کیے گئے مگر در حقیقت عسکریت پسند یا عسکریت پسند تنظیمیں اب بھی موجود ہیں۔
ان کے بقول اگست 2022 میں موجودہ حکومت کے طالبان کے ساتھ کابل میں ہونے والے مذاکرات میں جب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تو ان عسکریت پسندوں نے پرتشدد کارروائیاں تیز کردیں۔