امریکہ میں مرکزی بینک نےشرح سود میں اعشاریہ پانچ فی صد اضافہ کر دیا ہے جو گزشتہ 22 برسوں کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔ شرح سود میں اس تاریخی اضافے سے جہاں امریکہ میں مکانات کی خریداری اور کاروبار کے لیے دیے گئے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوجائے گا وہیں ماہرین عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب امریکہ میں مہنگائی چالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ سود کی شرح میں اضافے سے امریکہ کی معیشت کئی اعتبار سے متاثر ہوگی۔ سب سے پہلا اثر یہ ہوگا کہ امریکہ میں معیشت سست روی کا شکار ہو جائے گی اور امریکی صارفین میں غیر ملکی مصنوعات کی طلب میں بھی کمی آجائے گی۔
شرح سود میں اضافے کی وجہ مہنگائی کو قابو میں لانا بتائی جاتی ہے۔ اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شرح سود مستقبل میں مزید بڑھ سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں شرحِ سود میں ہونے والا اضافہ اس کی سرحدوں سے بہت دور سری لنکا کے ایک دکان دار سے لے کر موزمبیق کے کسانوں تک دنیا کے غریب ممالک کو بھی متاثر کرے گا۔
عالمی سطح پر غربت میں کمی کے لیے کام کرنے والے جوبلی یوایس نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایرک لی کومپیٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شرح سود میں اضافے سے ترقی پذیر ممالک پر دباؤ بڑھے گا۔
SEE ALSO: امریکی ڈالر دنیا کی طاقت ور ترین کرنسی کیسے بنا؟عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے گزشتہ ماہ ہی امریکہ اور دیگر ممالک کے مرکزی بینکوں کو آگاہ کیا تھا کہ شرحِ سود میں اضافے سے ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
شرحِ سود میں اضافے کے کڑے اثرات کے پیش نظر آئی ایم ایف نے ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کی شرح نمو کے لیے اپنے سابقہ اندازے میں کمی کرکے اسے تین اعشاریہ آٹھ کردیا تھا۔ رواں برس جنوری میں اس شرح کا اندازہ چار اعشاریہ آٹھ فی صد تک بتایا گیا تھا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان ممالک میں معاشی سرگرمیوں اور قومی پیداوار کے حوالے سےجو اندازے لگائے گئے تھے وہ سرکاری و نجی قرضوں پر سود کی شرح بڑھنے کی وجہ سے درست ثابت نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ جب بھی کسی ملک میں شرحِ سود میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں حکومت اور نجی شعبوں کے قرضے سود کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بڑھ جاتےہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ شرح پر قرض ملنے کی وجہ سے سرمایہ کار اور صارفین کی جانب سے قرضوں کے حصول میں کمی آجاتی ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں اور ان میں کمی آ جاتی ہے۔
ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ
امریکہ میں شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔ کیوں کہ سرمایہ کار امریکہ کے سرکاری اور کارپوریٹ بانڈز میں پیسہ لگانے کی جانب متوجہ ہوں گے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں امریکہ ان کی سرمایہ کاری کے لیے زیادہ محفوظ ہے اور شرحِ سود میں اضافے سے ان کے منافع کی شرح بھی بڑھ جائے گی۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرمایہ کار غریب اور ترقی پذیر ممالک سے اپنا سرمایہ نکال کر امریکہ میں لگائیں گے۔ سرمائے کی اس منتقلی سے ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر مزید بڑھے گی۔
مہنگائی میں اضافہ
غریب یا ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں کمی ان کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ کرے گی کیوں کہ اس کےنتیجے میں خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی درآمدات کے لیے ادائیگیاں بڑھ جائیں گی اور مقامی سطح پر ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
اشیا کی نقل و حمل یا سپلائی چین تاحال کرونا وبا کے اثرات سے نہیں نکلی۔ کئی ممالک پہلے ہی خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے طوفان کا سامنا کررہے ہیں اور یوکرین پر روس کے حملے کے باعث اناج اور کھاد وغیرہ کی رسد متاثر ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔
مقامی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کے اثرات کو روکنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کے مرکزی بینک بھی شرحِ سود میں اضافہ کریں گےاور بعض ممالک میں تو یہ اضافہ شروع ہوچکا ہے۔ ان ممالک میں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پہلے سے سست روی کی شکار معاشی سرگرمیاں مزید سست ہوجائیں گی۔
ترقی پذیر ممالک میں شرحِ سود بڑھنے سے کاروباری قرضے کم ہوں گے اور صنعتی و پیدواری سرگرمیاں متاثر ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان معاشی حالات کی وجہ سے ترقی پذیر اور غریب ممالک کی حکومتوں کے بجٹ کا زیادہ تر حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا اور کرونا وبا کے مقابلے اور خوراک کی فراہمی پر خرچ کی وجہ سے ان شعبوں میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا پہلے ہی خبردار کرچکی ہیں کہ کم آمدن والے 60 فی صد ممالک اس وقت شدید 'قرضوں کے دباؤ' کا شکار ہیں۔ اس دباؤ سے مراد یہ ہے کہ ان کے قرضے ان کی مجموعی معیشت کے حجم کے نصف سے بڑھ چکے ہیں۔
مزید اضافہ متوقع
شرحِ سود میں اضافے کے دیگر ضمنی نقصانات کے باوجود توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ امریکہ کا مرکزی بینک بڑھتی ہوئی افراطِ زر کا مقابلہ کرنے کے لیے رواں برس سود کی شرح میں مزید اضافہ کرے گا۔
امریکہ میں افراطِ زر میں حالیہ اضافہ بنیاد ی طور پر 2020 میں وبا کے باعث پیدا ہونے والے مالی بحران کے بعد ہونے والی غیر متوقع بحالی کا نتیجہ ہے۔
وبا کے باعث معاشی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں نرم پڑتے ہی طلب پوری کرنے کے لیے مختلف کاروباری شعبوں کو ورکرز اور خام و تیار مال کے بندوبست کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ اس کے نتیجے میں اشیا کی مزید قلت پیدا ہوئی، آرڈرز وقت پر پورے نہیں ہوسکے اور قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔
رواں برس مارچ میں امریکہ میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ فی صد اضافہ ہوا جو 1981 کے بعد سب سے زیادہ اضافہ تھا۔
امریکہ کے مرکزی بینک نے شرحِ سود میں اضافہ افراطِ زر کو قابو کرنے کے لیے کیا ہے۔ اس سے معاشی سرگرمیاں سست تو ہوں گی لیکن کساد بازاری کا خطرہ فی الحال پیدا نہیں ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان پر ممنکہ اثرات
ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ امریکہ میں شرح سود بڑھنے کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو ایندھن سمیت بہت سی دیگر ضروری اشیا کے لیے درآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ بر آمدات میں کمی اور بے تحاشہ درآمدات کی وجہ سے پاکستانی روپیہ پہلے ہی دباؤ کا شکار نظر آتا ہے۔
کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ امریکہ میں شرح سود بڑھنے سے سرمایہ کاروں کا رجحان امریکی ڈالرز میں سرمایہ کاری پر ہوگا اور یوں وہ اپنا سرمایہ پاکستان سمیت دیگر ممالک سے نکال کر امریکی بینکوں میں منتقل کرنے کو ترجیح دیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے اور روپے پر دباو مزید بڑھ سکتا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں پہلے ہی دو فیصد کم ہو کر 285۔1 ارب ڈالرز پر پہنچ گئی جو بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
سب سے زیادہ کون متاثر ہوگا؟
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے چیف اکانومسٹ روبن بروکس کا خیال ہے کہ معاشی طور پر مضبوط ہونے کے سفر پر گامزن ممالک کی اقتصادی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ان میں سے جن ممالک نے اپنے زرِِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا ہے وہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قدر کو کم ہونے سے روکنے کے لیے اس کا استعمال بھی کرسکتےہیں۔
ان کے بقول موجودہ حالات میں سب سے زیادہ خطرات کی زد میں وہ ممالک ہیں جو تیل اور اشیائے ضروریہ کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں اور ان کی ادائیگیاں ان کے زرِ مبادلہ ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ سے وابستہ محقق لیلیانا روہاس۔سواریز کے مطابق امریکہ میں شرحِ سود بڑھنے سے جو عالمی اثرات متوقع ہیں سری لنکا ان سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے جو گزشتہ ماہ ناکافی زرمبادلہ کی وجہ سے درآمدات کے واجبات کی ادائیگیاں معطل اور قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کرچکا ہے۔
ان کے مطابق تیونس، ترکی اور موزمبیق کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ میں شرحِ سود بڑھنے سے ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ امریکہ ایک مضبوط معیشت ہے۔ شرح سود میں اضافے کے بعد بھی کاروباری شعبہ اور صارفین اشیا کی خریداری کے لیے قرض حاصل کرتے رہیں گے جس کی وجہ سے امریکہ کو برآمدات بڑھانے کے مواقع برقرار رہے ہیں۔ لیکن جب مرکزی بینک سوچ سمجھ کر معاشی سرگرمیاں سست کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کررہا ہو تو اس کے اثرات مختلف ہوں گے۔
[اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔]