جمعرات کو ریاض میں چوٹی کے امریکہ سعودی مذاکرات

فائل

شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنائو پر بات چیت کے علاوہ، توقع ہے کہ ایران، مصر، ڈگمگاتے ہوئے اسرائیل فلسطین امن مذاکرات، اور تشدد پر مبنی انتہا پسندی کے انسداد کی کوششوں پر بات ہوگی: امریکی اہل کار
امریکی صدر براک اوباما جمعے کے روز سعودی عرب کا دورہ کریں گے، جہاں وہ مشرق وسطیٰ میں سلامتی کے مفادات سے متعلق اختلاف رائے دور کرنے کے لیے، شاہ عبداللہ کے ساتھ اعلیٰ ترین سطحی مذاکرات کریں گے۔

امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنائو پر بات چیت کے علاوہ، توقع ہے کہ ایران، مصر، ڈگمگاتے ہوئے اسرائیل فلسطین امن مذاکرات، اور تشدد پر مبنی انتہا پسندی کے انسداد کی کوششوں پر بات ہوگی۔

شام میں تین برس سے جاری خانہ جنگی مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ تنائو کا موجب بنی ہے، اور سعودی عرب نےگذشتہ برس اُس امریکی فیصلے پر تنقید کی تھی جس میں صدر بشار الاسد کی شامی حکومت کے خلاف نبرد آزما باغیوں کو مسلح کرنے کے منصوبوں کو ترک کرنے کی بات کی گئی تھی۔

سعودی حکومت نے اوباما انتظامیہ کی طرف سے ایران کے ساتھ ممکنہ مکالمے کے آغاز پر اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا ہے، جو علاقے میں سعودی بادشاہت کا چوٹی کا مخالف ہے۔

مصر کے معاملے پر گذشتہ سال باہمی اختلافات اُس وقت نمودار ہوئے جب صدر اوباما نے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی معطلی پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ سعودی عرب نے فوجی حمایت والی حکومت کو مدد فراہم کی، جس نے اقتدار سے ہٹائے گئے صدر کی جگہ لی۔

توقع کی جارہی ہے کہ ریاض کے مذاکرات میں مسٹر اوباما کے ساتھ وزیر خارجہ جان کیری بھی شریک ہوں گے، جنھوں نے بدھ کے روز، امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ نتیجہ خیز بات چیت کی۔

کیری نے ٹیلی فون کے ذریعے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی گفتگو کی، جِس کا مقصد کسی حد تک اسرائیل فلسطین اختلافات کو رفع کرنا تھا، جِن کے باعث امن مذاکرات کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے۔

بات چیت کے ضمن میں مزید مشکلات اُس وقت پیدا ہوئیں جب بدھ کے روز عرب رہنمائوں نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

وسیع تر سفارتی راہ کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے سے مشروط کر رکھا ہے۔