قرنطینہ میں پھنسے ایک باپ کو 'روبوٹ' بیٹی کی شادی میں لے گیا

  • شہناز عزیز

Your browser doesn’t support HTML5

ایک روبوٹ قرنطینہ میں پھنسے باپ کو بیٹی کی شادی میں لے گیا

جوئیل ینگ ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جو کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے، تفریحی بحری جہاز "گرینڈ پرنسس" پر ہفتوں کے لئے قید ہو گئے تھے۔

وہاں تن تنہا اپنے کیبن میں بند، ان کا واحد مشغلہ ویڈیو گیم کھیلنا، یا گھر کو یاد کرنا تھا۔ وہ ایری زونا میں، اپنی بیٹی کی جلد ہی ہونے والی شادی کے بارے میں سوچ کر دکھی ہو جاتے تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح اڑ کر وہاں پہونچ جائیں اور بیٹی کی شادی میں شریک ہو جائیں۔

پھر انہیں اس کروزشپ سے، امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک میرین بیس میں منتقل کر دیا گیا، جہاں انہیں دو ہفتے قرنطینہ میں رہنا تھا۔ جولین نے جب اپنی بیٹی کو فون پر بتایا کہ وہ شادی میں نہیں شامل ہو سکیں گے، تو دونوں ہی کے آنسو بہہ نکلے۔

ان کے دوستوں اور عزیزوں نے سر جوڑ کر حل ڈھونڈ ہی نکالا۔ وہ تھا’ ٹیلی پریزنسروبوٹ‘ جس کے ذریعے جولین شادی میں شامل ہو سکتے تھے۔

اس روبوٹ کو ایری زونا میں ان کی ماں کے گھر بھیج دیا گیا۔ دلہن، دولھا اور ماں نے اسے "پاپابوٹ"کا نام دیا۔ اور اس کو خرگوش جیسے کانوں سے سجا بھی دیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایک باپ نے کس طرح ربوٹ کی مدد سےبیٹی کی شادی میں شرکت کی

روبوٹ کا کنٹرول کیلیفورنیا میں جولین کے ہاتھ میں تھا اور وہ ہزاروں میل دور، شادی والے گھر میں ہر طرف جا سکتے تھے۔ کھلے آسمان تلے ہونے والی شادی کی خوبصورت تقریب میں، وہ پوری طرح شامل رہے۔ جولین اپنی بیٹی کو ہاتھ تھام کر اسٹیج تک تو نہ لے جا سکے۔ لیکن روبوٹ کی مدد سے وہ بھی مہمانوں کے ساتھ ایک طرف کھڑے بیٹی کو ڈانس کرتا دیکھ رہے تھے۔

جولین کہتے ہیں جب کوئی بڑا چیلنج سامنے آتا ہے تو آپ اس کا بہترین حل ڈھونڈتے ہیں۔

کرونا وائرس نے ٹیکنالوجی کو ایک نیا تخلیقی رخ دیا ہے۔