مجھے بو نہیں آتی

بو سونگھ کر بھونکنے والا جاپانی روبوٹک کتا ۔ ہانا چان

جب کوئی جوتا اتارتا ہے تو اکثر اوقات ایک ناگوار سی بو محسوس ہوتی ہے۔ لیکن عموماً ہمیں اپنی جرابیں اتارتے ہوئی بو نہیں آتی کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔

ایسا تو آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو گا کہ کسی نے جوتے سے اپنا پاؤں باہر نکالا اور آپ کو اپنا منہ دوسری طرف کرنا پڑا یا کسی بہانے سے کمرے سے باہر نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ایک بار لاہور سے اسلام آباد کے بس کے سفر میں میں بھی اسی نوعیت کے مشاہدے سے گذرا۔ جیسے ہی درمیانی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے ایک مسافر نے اپنے جوتے اتارے، پوری بس میں اتنا شدید تعفن پھیل گیا کہ پچھلے نشستوں تک کے مسافر بھی چلا اٹھے اس شخص کو نیچے اتارو۔ اور وہ حیران پریشان سب کا منہ دیکھ رہا تھا کہ کیا یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں۔

اکثر لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے پاؤں سے کتنی بو آتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی بو کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ کئی ایک کی خوشبو اور بدبو محسوس کرنے کی حس کمزور ہوتی ہے اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن میں قدرتی طور پر بو یا خوشبو محسوس کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی اور وہ کر ہ ارض پر بکھری ہوئیں خوشبوؤں کا لطف اٹھانے سے محروم رہتے ہیں۔

خوشبو کے بارے میں تو اکثر لوگ آپ کو یہ کہہ کر بتا دیتے ہیں کہ آپ نے بہت اچھا پرفیوم لگا رکھا ہے، لیکن یہ بتانے سے ہر کوئی احتراز کرتا ہے کہ آپ کے پسینے یا پاؤں سے بو آتی ہے ماسوائے بہت قریبی عزیزوں کے۔

یہ صدیوں پرانا مسئلہ ہے۔ ۔ بو پر قابو پانے کا سب سے قدیم طریقہ خوشبو ہے۔ پرفیوم اور خوشبو کی دنیا میں سب سے اہم نام پیرس کا ہے۔ یہ کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 18ویں صدی میں اعلی اور مہنگی ترین خوشبوئیں بنانے والا پیرس چمڑے کی مصنوعات کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا تھا۔ وہاں کے کاریگر چمڑے کو نرم اور ملائم کرنے کے لیے پیشاب سے دھوتے تھے جس سے چمڑے کے اندر اور پورے ماحول میں بو رچ بس جاتی تھی۔ اسے دور کرنے کے لیے خوش‌بودار جڑی بوٹیاں سلگائی جاتی تھیں۔ دوسرا یہ کہ اس زمانے میں پیرس سمیت پورے یورپ کے گھروں میں غسل خانے نہیں ہوتےتھا اور لوگوں کو پبلک غسل خانوں میں جانا پڑتا تھا ۔اکثر اوقات انہیں نہائے بغیر کئی کئی دن گذر جاتے تھے۔ جس سے ان کے جسم سے بو آنے لگتی تھی جس سے چھٹکارے کے لیے انہیں خوشبو استعمال کرنی پڑتی تھی۔ خوشبو کی طلب نے پیرس کی پر فیوم انڈسٹری کو ترقی دی۔

خوشبو بنیادی طور پر جسم کی اس بو کو چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی ہےجو ممکن ہے کہ آپ کو تو نہ آ رہی ہو لیکن دوسرے لوگ اسے فوراً محسوس کر لیتے ہیں۔ خاص طورپر پاؤں کی بو تو بہت ہی ناگوار ہوتی ہے۔

پاؤں کی بو جاپانیوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اس ملک میں آپ کو کسی گھر میں داخل ہونے کے لیے دروازے پر اپنے جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ اگر آپ کے پاؤں میں بو ہے تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ شدید ہو جاتا ہے کیونکہ جاپانی رکھ رکھاؤ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

جاپان کی ایک ٹیک کمپنی نے اس مسئلے کا حل پیش کیا ہے ہانا چان کی صورت میں ۔جاپانی زبان میں ہانا چان ایک پیار کا نام ہے اور عموماً لڑکیوں کو اس نام سے پکارا جاتا ہے۔

نیکسٹ ٹیکنالوجی نامی کمپنی نے اس نام سے پالتو کتے کی شکل کا ایک چھوٹا سے خوبصورت روبوٹ متعارف کرایا ہے۔ آپ جیسے ہی کسی عمارت میں داخل ہوتے ہیں ، چان لپک کر آپ کے قریب آتا ہے اور بڑے پیار سے آپ کے پاؤں سونگھتا ہے۔ اگر اسے بو محسوس ہو تو وہ اپنا منہ کھول کر ائیر فریشنر کی پھوار پھینکتا ہے۔ لیکن اگر بو بہت ناگوار ہو تو وہ بھونکتے ہوئے بے سدھ ہو کر فرش پر گر جاتا ہے۔ جس کا شریفانہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاؤں کی بو ناقابل برداشت ہے اور آپ براہ مہربانی اس محفل کو خراب نہ کریں۔

جاپان میں بو اتنا حساس معاملہ ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک اور چاپانی کمپنی نوکیا منالٹا نے جیبی سائز کے ایک آلے کی فروخت شروع کی ہے جس کی مدد سے آپ اپنے پاؤں کی بو کی سطح چیک کر سکتے ہیں۔ آلہ آپ کو یہ بتاتا ہے کہ صفر سے 100 کے سکیل پر آپ کی بو کا درجہ کیا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ اس بو کے ساتھ آپ کو جوتے اتار کر کسی کے گھر میں داخل ہوتے ہیں یا الٹے قدموں لوٹ جاتے ہیں۔

نیو ٹیکنالوجی کا روبوٹک کتا اس لحاظ سے بہتر ہے کہ وہ ایک خاص سطح کی بوکو ایئر فریشنر کے سپرے سے دبا دیتا ہے۔

اور ہاں آخری بات۔۔۔ یہ روبوٹک کتا ہمارے اور آپ جیسے مڈل کلاس والوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ ہمیں پاؤں کی اسی بو کے ساتھ ہی گذارہ کرنا ہے کیونکہ کمپنی اسے دس ہزار ڈالر میں بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔